جمہوریت
منزل یا نشانِ منزل
رفیع اللہ
انتخابات میں دھاندلی کے خلاف شروع ہونے والا احتجاج ایک موقعے پر حکومت کی بقا کے لیے خطرہ بن گیا تھا۔اس صورت حال نے جمہوریت کو لے کر ایک دلچسپ مکالمے کو جنم دیا ہے۔اور مکالمہ یہ ہے کہ حکومت کے خلاف احتجاج سے در اصل جمہوریت کو خطرہ ہے۔جس طرح پاکستان میں ہر وہ نظریہ اور اختراع جو ہماری روایتی مذہبی اشرافیہ کے مفادات کو زِک پہنچائے اسلام کے لیے خطرہ قراردے دی جاتی ہے۔بالکل اسی ڈَگر پر چلتے ہوئے جمہوریت کو ایک مقدس تصور کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ایک ایسا تصور جس کا تحفظ قومی زندگی کے ہر پہلو پر مقدم ہو۔اور یوں جمہوریت کے تقدس کی آڑ میں ہماری سیاسی اشرافیہ ہر طرح کے احتساب سے استثنا مانگ رہی ہے۔ایسے ماحول میں جمہوریت کی حمایت اور ارباب ِاقتدار کے احتساب کی عوامی خواہش کو باہم مقابل لا کھڑا کیا گیا ہے۔یعنی اگر آپ احتساب کا مطالبہ کریں تو جمہوریت خطرے میں پڑےگی اس لیے جمہوریت کی خاطر آپ کو حکمران طبقے کی ہر طرح کی بدیانتی و بد انتظامی سے صرف ِنظر کرنا ہوگا۔ یہ مکالمہ اُن لوگو ں کے لیے خاص طور پر ریشان کن ہے جو پاکستان کو جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے ایک ترقی کرتا ہوا ملک دیکھنا چاہتے ہیں جہاں سب کو خوشحالی کے یکساں مواقع میسر ہوں۔اس لیے ضروری ہے کہ تصورِ جمہوریت کو تاریخی اور ارتقائی تناظر سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔
جمہوریت ایک مغربی تصور ہے ۔اس کی جدید شکل نے یورپ کے مطلق العنان بادشاہوں کی رعایا میں جنم لیا ۔بادشاہوں کو ٹیکس لگانے ،قانون بنانے ، بغیر کسی الزام کے گرفتار کرنے اور مقدمہ چلائے بغیر سزائیں دینے جیسے خدائی اختیارات حاصل تھے۔بادشاہ زمین پر کسی کو جوابدہ نہیں ہوتا تھا۔یہ وہ ماحول تھا جس میں عوام نے ابتداً ٹیکس لگانے اور قانون بنانے جیسے اختیارات میں شراکت مانگی۔ شروع میں انگلستان میں بادشاہوں نے اشرافیہ (nobility)کو کسی حد تک شریک اقتدار کیا مگراشرافیہ بھی عوامی امنگوں کی ترجمانی نہ کر پائی ۔ اور یوں انگلستان کی پارلیمان دارالعوام (House of Commons )اور دارلامرا (House of Lords) میں بٹ گئی۔رفتہ رفتہ دارلعوام حقیقی عوامی نمائندہ بن کر ابھرا اور بادشاہ اور اشرافیہ سے تمام اختیارات لے لیے ۔اس نمائندہ عوامی حکمرانی نے انگلستان (بعد ازاں برطانیہ) کے استحکام، ترقی، اور عوامی خوشحالی کی راہ ہموار کی۔ مختصر ترین الفاظ میں یہ تھا برطانیہ کا باداشاہت سے جمہوریت کا سفر ۔اس مثال سے صاف ظاہر ہے جمہوریت کو متوسط طبقے نے رائج کیا ۔ آج اگر مغربی ممالک میں کوئی غیر جمہوری کام نہیں ہوسکتا تو اس کی سب سے بڑی وجہ وہی متوسط طبقہ ہے۔ گویا مغرب میں جہاں جمہوریت نے جنم لیا اور کافی حد تک حقیقی معنوں میں رائج ہے وہاں متوسط طبقہ جمہوریت کا محافظ ہے۔
برصغیر میں جمہوریت کو محدود شکل میں برطانوی نو آباد کاروں نے متعارف کروایا ۔جب تک متحدہ ہندوستان پر برطانیہ کا اقتدار رہا برطانیہ نے مقامی اشرافیہ سے مل کر حکومت کی ۔برطانیہ سےآزادی کے بعد اقتدارقدرتی طور پر اشرافیہ کے ہاتھ لگا ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا اقتدار کبھی اشرافیہ کے ہاتھوں سے نکل کرعوامی نمائندوں کو ملا ؟ کیا ہماری موجودہ سیاسی قیادت حقیقی عوامی نمائندوں پر مشتمل ہے؟ کیا ہمارے نظام میں عوامی امنگوں کی ترجمانی کرنے کی صلاحیت اور عزم ہے ؟ کیا عوام جمہوریت کے لیے ہیں یا جمہوریت عوام کے لیے ؟ کیا جمہوریت ایک مقدس خدائی فلسفے یا عقیدے کا نام ہے؟ کیا ایسی جمہوریت جس کو بھر پور عوامی حمایت حاصل ہو خطرے میں ہوسکتی ہے؟ کیا ہمارے جمہوری نظام میں اصلاح و ارتقاکی گنجائش و صلاحیت ہے ؟کیا ہماری روایتی سیاسی قیادت بہتر مستقبل کی خواہشمند نوجوان نسل کی بڑھتی ہوئی بے صبری سے آگاہ ہے؟ کیا ہمارے موجودہ نظام کو ہمارے پڑھے لکھے متوسط طبقے کا اعتماد حاصل ہے ؟اور سب سے بڑھ کر کیا "ریاست ماں کے جیسی ہے "؟ ہماری سیاسی جدو جہد کا مقصود کیا ہے ؟ کیا جمہوریت منزل ہے نشانِ منزل؟
یہ وہ سب سوال ہیں جو موجودہ ماحول کے تناظر میں نہایت اہم ہیں۔میری اپنی رائے میں جمہوریت کو ایک مجرد ، مقدس اور ارفع نظریے کے طور پر پیش کرنا نہایت خطرناک ہے۔ جمہوریت ایک خامیوں سے بھر پور مگر دستیاب سیاسی نظاموں میں سب سے بہتریں ذریعہ ہے عوامی نمائندگی کے ذریعے عوام الناس کی خوشحالی کا مقصد حاصل کرنے کا۔جمہوریت کو مقتدر اشرافیہ کے اقتدار اور مفادات کی خاطر استعمال کرنا بدقسمتی ہے۔جمہوریت کی بہترین حفاظت عوامی اعتماد و حمایت ہے ۔جب تک جمہوری نظام کو مقبول عوامی حمایت حاصل نہیں ہوگی یہ محفوظ نہیں ہوسکتا ۔ ہماری سیاسی اشرافیہ آج شاید جوڑ توڑ اور روایتی چالاکیوں سے اپنے اقتدار کو بچا لے مگر جمہوریت کسی طرح محفوظ نہیں ہوگی۔ اسے ہمیشہ خطرہ لاحق رہے گا اور آج نہیں تو کل اس طاقتور گروہ سے دوسرا زیادہ طاقتور گروہ حکومت چھین لے گا۔سوال یہ ہے اگر ایسا ہوا تو کیا عوام اس جمہوری نظام کی حفاظت کو آئیں گے؟