Difficulty in reading Urdu text?

If it is difficult to read Urdu text or you preferably wish to read in "Nastaleeq" please click here to download and install Urdu font. If you want to type in Urdu as well please follow the instructions given on this website.

Saturday, April 9, 2011

        اعلیٰ تعلیم کی اعلیٰ  تحلیل  

ڈاکٹر محمد صبیح انور
اسسٹنٹ پروفیسر فزکس،لمز    یونیورسٹی ،لاہور
یہ بات روز روشن کی طرح صاف اور عیاں ہے کہ اسلامی دنیا میں سائنسی فکر اور تخلیقی مزاج ابھی تک پنپ نہیں پایا۔امت مسلمہ میں علمی اور سائنسی انقلاب کا خواب ہنوز محروم ِ تعبیر ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اعلیٰ ترین حلقوں میں ہماری کم مائگی کے نوحہ خواں اور پرچارک  کثیر تعداد میں مل جائیں گے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ایسے مردانِ آزاد کیش کی اچھی خاصی تعداد بھی ضرور موجود ہے جواس نوحۂ ماتم  کو بانگ ِ رحیل  تصوّر کرتے ہوئے عملی طور پر مستعد نظر آئےگی اور تعلیم وسائنس کے کارزاروں میں جمود انگیز رُجعت پسندی اور جاہلیت کے استحصالی نظام کے خلاف لڑتے دکھائی دے گی۔
پاکستان کا اعلیٰ تعلیمی کمیش یعنی ایچ ای سی  ایک ایسے ہی علمی اور فکری انقلاب کا داعی تصوّر کیا  جاتاہے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمٰن اور اُن کے چنیدہ ساتھیوں نے جو پودا  دس برس قبل لگایا تھا اب وہ تنا ور درخت بن چکا ہے۔جس کی گھنی شاخیں ہمارے ملک کی جامعات، اُن میں پڑھانے والے اساتذہ ،  پڑھنے والے طلبہ وطالبات اور بیرون ملک بھیجے جانے والے نوجوانوں کے مستقبل پر ٹھنڈی چھاؤں کی طرح سایہ فگن ہیں۔ اب ہر درد کی درماں اَ ٹھارویں ترمیم اس قوم پرور  ادارے  کی  بنیادیں کھودنے کے در پے ہے۔ ہمارے منتخب کردہ  لیڈر حضرات بہ جنبش یک قلم اس ادارے کو تحلیل کر کے اختیارات صوبوں اور وفاق کے ذیلی اداروں کے حوالے کردینا چاہتے ہیں۔ میرے اور میرے ہی جیسے ہزاروں استادوں ، سائنسدانوں اور ملک کے لاکھوں طلبہ کی خواہش ہے کہ اس کمیش کو موجود ہ صورت میں بر قرار رکھا جائے۔
میں نے بیرون ملک وظیفے پر پڑھتے ہوئے ۲۰۰۵ء میں طبیعیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ دو سال امریکہ میں بطور محقق کام کیا اور پھر وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ اِنسان پُر آسائش زندگی کا مزہ چکھ لے تو نفس خوگرِ آسائش ہو جاتاہے ۔ ایسے میں کسی بھی پاکستانی کا بیرونِ ملک دلکش زندگی اور شہرت کی چکاچوند ہماہمی کو چھوڑ کر وطن واپس آنا کسی دیوانے کا کام تو ہو سکتا ہے فرزانے کا نہیں۔ مگر ۲۰۰۷ء میں ملک کے سائنسی حلقوں میں ایک گہما گہمی موجود تھی۔ اعلیٰ تعلیم کے تنِ خفتہ میں بیداری کی روح پھونکی جاچکی تھی۔ ساٹھ سال کے سماجی اور معاشی مقاطعے کے بعد اعلیٰ تعلیم  اور سائنسی تحقیق کو بنظر تکریم دیکھا جانے لگا تھا۔محسوس ہوتاتھا کی ملک میں سائنس کے میدان میں فصل بہار پھوٹنے کو ہے۔ یہی احساس تھا جس نے مجھے مجبور کیا کہ ملک میں واپس آؤں اور اپنے دل ودماغ کو نوجوانوں کی آرزوئے علم کی آبیاری کے وقف کردوں ۔
میں آج پاکستان میں اُستادوں اور سائنسدانوں کی پوری جماعت کو دیکھتا ہوں تو مجھے اِن کے چہروں پر طمانیت اور اُمید کی ایسی تابندگی نظر آتی ہے جو لفظوں میں بیا ن کرنا مشکل ہے۔محسوس ہوتا ہے کہ ایچ ای سی ان کے تما م دُکھوں کا مداوا ہے ۔ جن دمہ داریوں کی بجا آوری سے ہمارے ملک کی یونیورسٹیاں مستغنی رہی ہیں ، کمیشن نے اِس خلا کو کمال تنظیم اور منصوبہ بندی سے پُر کیا ہے۔تجرباتی تحقیق کے لیے کثیر رقم کی فراہمی،سائنسی آلات کی دیکھ بھال  اور درستگی،تحقیقی مقالوں کی اشاعت ، بیرون ِ ملک سفری اخراجات، پی ایچ ڈی کی تحقیق کے لیے طلبہ کے لیے وظائف،تحقیقی اداروں سے مفت یا کم قیمت پر جرائد کا حصول ،  معیاری نصابات کی تیاری اور پھر ملک بھر میں   ابلاغِ عام اور کتنے ہی ایسے سینکڑوں منصوبے ہیں جوکمیشن کی زیر نگرانی  رُوبہ عمل ہیں۔ یہی وہ ماحول ہے جسکی آرزو اور تلاش ایک نوجوان سائنسدان کر سکتا ہے۔اور شاید اسی ماحول کی دَین ہے کہ آج ملک میں سائنسی تحقیق اور اس سے برانگیختہ ہونے والے فکری اور تعلیمی انقلاب کاخواب دیکھنے  کا حوصلہ ملتا ہے۔اب ان خوابوں کا وزن کس کسوٹی  پر پرکھیں؟ یہ خواب تو امروز کی صراحی سے ٹپکنے والے قطرے ہیں جو بحرِ فردا میں شامل ہوتے جارہے ہیں۔خوشحالی اور معاشی آسودگی اور تہذیبِ عالم میں باوقار  اور برابری کی سطح پر شمولیت کے اس بحر فردا کی تشکیل میں کئی دہائیاں درکار ہیں مگر ایچ ای سی کی بدولت یہ سفر شروع ہو چکا ہے  ۔  اب اس سفر کو روکنے کا کیا مطلب ہے؟
ایچ ای سی کے کوائف تو سب کے سامنے ہیں۔ اس کی کارکردگی کی کمیتی  جانچ پڑتا ل کچھ مشکل نہیں   اور ابلاغِ عامہ کے ذرائع میں کمیشن کی تحلیل کے بارے میں بحث کا آغاز ہوچکا ہے۔ مگر جہاں میں نے امید کی بات کی ہے وہاں بحث کا ایک اور غیر مرئی لیکن نہایت اہم پہلو یہ بھی ہے کہ قومی ہم آہنگی  میں بھی اس ادارے  کا کردار ہر اعتبار سے مثالی رہا ہے۔ جہاں ہمارے ملک میں نوآبادیاتی نظام  کے وارثوں  یعنی جاگیرداروں اور افسر شاہی نے قومی ترقی  کا گلا دبا دیا ہے اور اداروں کے تسلسل، استحکام  اور دوام  کو آمروں نے قتل کر دیا ،  وہاں تعلیم کے قومی سال  ۲۰۱۱ء میں قومی ترقی کی سمت متعین کرنے  والے شُعبے یعنی اعلیٰ تعلیم کو جمہوریت کی  قربان گاہ میں صوبائیت کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔بہت خُوب !
 ایچ ای سی کا ایک اعلیٰ ترین کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے درمیان رابطے  کا کام دیا ہے۔ملک میں کتنی  ہی کانفرنسیں منعقد ہوئیں جو  اس کمیش کے زیرِ بارِ احسان ہیں۔ ان کانفرنسوں میں ملک کے دور دراز علاقوں سے آنے والے مہمان اور ان کے درمیان سماجی اور تعلیمی میل جول کی جو فضا بر پا ہوئی،اب اسے قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ سائنسی تحقیق صوبائی حدود تو ایک طرف،  بین الاقوامی اور بین البراعظمی حدور کے آر پار دیکھتی ہے۔کمیشن کی صوابدید کو صوبوں میں بانٹ کر یہ توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ ہم تعلیم و تحقیق کے میدان میں کسی قومی سطح کی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہناسکیں گے۔  کیا  ہماری قوم کے نصیب میں شیرازہ بندی نہیں؟ میری نظر میں تو کمیشن کی بساط لپیٹ دینا  من حیث القوم اگلے بیس تیس  سال کی پیش بندی کے حق سےدستبردار ہونے کے مترادف ہے۔
خدارا ، زلزلے اور سیلاب کی قدرتی آفتوں کے بعد ڈرون اور خود کش حملوں کی عادی قوم کو اس بحران سے نکالیں ۔  اعلی تعلیم کے پنگھوڑے میں پہلی انگڑائی لینے کے بعد ہمیں ارتقا اور استدراج کے صبرآزما دور سے گزرنا ہے ۔ خدا کے لیے ہماری قوم کو تہذیب کی سیڑھی پر اگلا قدم بڑھانے تو دیں ۔