Difficulty in reading Urdu text?

If it is difficult to read Urdu text or you preferably wish to read in "Nastaleeq" please click here to download and install Urdu font. If you want to type in Urdu as well please follow the instructions given on this website.

Monday, February 21, 2011

قومی سالمیت

رفیع اللہ
            چونسٹھ برس ہونے کو ہیں ہم ایک خطہ ارض میں اکٹھے رہ رہے ہیں جسے ہم نے مذہب کے  نام پر حاصل کیا تھا۔اِس بات  پہ اختلاف ہوسکتا ہے کہ بانیانِ پاکستان  ،پاکستان کو بعد ازاں کس قسم کی ریاست بنانا چاہتے تھے مگر اس بات پر اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں  ہےکہ ہندوستان سے علیحدگی کی بنیاد مذہب ہی کو بنایا گیا تھا۔مگر جس خطے کو ۱۹۴۷میں پاکستان کا نام دیا گیا اُس کے باسی نہ تو ایک زبان بولتے تھے اور نہ  ہی ایک  نسل سے تعلق رکھتے تھے۔تقریباً نصف آبادی پر مشتمل ایک حصہ تو نہ صرف نسلی و لسانی  بلکہ جغرافیائی  اعتبار سے بھی باقی  نصف آبادی  والےحصے سے دور تھا۔گویا ابتداً یہ باور کرنا بالکل فطری ہوگا  کہ شاید نسلی ،لسانی اور جغرافیائی شناختوں سے بالاتر ایک مذہبی شناخت ہمیں متحد رکھے گی۔
            یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مذہب کو علیحدگی کی بنیاد بناتے وقت دو بنیادی خدشات کو دلیل بنایا گیا۔ ایک یہ کہ اگر ہم ہندوستان کے ساتھ رہیں گے تو ہمیں اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل نہیں ہوگی۔دوسرا  اہم نقظہ یہ تھا کہ  متحدہ ہندوستان میں چونکہ ہم اقلیت میں ہوں گے تو  اکثریت معاشی،معاشرتی،تعلیمی اور سیاسی ہر میدان میں ہمارا استحصال کرے گی۔
گویا پہلے دن  سےمذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی اور لوگوں کی معاشی و معاشرتی فلاح ریاستِ پاکستان کی دو بنیادی ذمہ داریاں قرار پائیں۔مسلمان اکثریتی ملک میں اکثریت کو مکمل اور دیگرمذہبی اقلیتوں کو محدود مذہبی آزادی  دے  دی گئی۔یہ بہت آسانی سے کر دیا گیا کیونکہ ایسا کرنے میں ریاست کو عملاً کچھ نہیں کرنا پڑا ۔وجوہات جو بھی ہوں ریاستی ڈھانچہ پاکستانی عوام کو معاشی و معاشرتی فلاح کے یکساں مواقع فراہم کرنے میں کلی طور پر ناکام رہا۔ریاست نے اپنی انتہائی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری اور آزادی کے نعروں میں سے ایک نعرے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا ۔
             جب معاشی و معاشرتی استحصال کو نسلی و لسانی عصبیت کا تڑکا لگایا گیا تو پھر چسم فلک نے ایک ہی خدا وررسول کے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیا سا دیکھا۔چاہیے تو یہ تھا کو سلگتی چنگاریوں کو بجھایا جاتا مگر شاید اہلِ خرمن کے پاس پھونک دینے کو بہت کچھ تھا۔ایک طرف تحریکِ پاکستان میں سب سے فعال کردار ادا کرنے والے اپنے ہی ملک کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تو دوسری طرف سرحدوں کے رکھوالے اپنے ہی ہم وطنوں پہ پل پڑے۔اور تو اور ایک مذہبی جماعت کی سرکردگی میں مذہبی رٖضاکاروں نے بھی اپنے ہی ہم وطنوں اور ہم مذہبوں کے خلاف عملی جہاد کا اعلان کر دیا ۔اور  اس طرح مشرقی پاکستان کے مسلمانوں نے اپنے ہی ہم مذہبوں اور ہم وطنوں سے آزادی حاصل کی۔دونوں طرف سےمارے جانے  والوں کو آج بھی شہید مانا جاتا ہے۔اگر ایک طرف کےشہدا نے مادر وطن اور اُس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے جان دی تو دوسری طرف کے شہدا نےاپنی مادر وطن کو آزاد کراتے ہوئے۔
یہاں دو سوال بہت اہم ہیں۔ایک تو یہ  کہ کیا قوموں یا ملکوں کو سماجی ومعاشرتی انصاف کے بغیر محض مذہب یا کسی اور بالاتر نظریے کے نام پر متحد رکھا جا سکتا ہے؟ دوسرا یہ کہ اگر ہم مذہب کو ہی بنیادی شناخت اور اتحاد کی علامت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر مذہب  ہی کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے  ملک کے مختلف گوشوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کےلیے یکساں معاشی ومعاشرتی حقوق کو یقینی کیوں نہیں بناتے؟ مثلاًبلوچستان میں ہونے والی معاشی و سیاسی ناانصافیوں اور خیبر پختونخواہ میں ہونے والے ڈروں حملوں پر پنجاب کے باسی سیخ پا کیوں نہیں ہوتے؟
غور طلب بات یہ ہے کہ اگر ملک کا کوئی حصہ معاشی استحصال اور لسانی تعصبات  کے ردعمل میں الگ ہوجائے تو اس سے خود مذہب کو کیا فرق پڑتا ہے؟کم از کم میرے خیال میں تو مذہب کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔مثال کے طور پر بنگلہ دیشی آج بھی ویسے ہی مسلمان ہیں جیسے ۱۹۷۱سے پہلے تھے ۔
یہ تو ایک زمینی حقیقت ہے کہ ہم لسانی اور نسلی اعتبار سے ایک متنوع معاشرہ ہیں۔تو ایسے حالات میں مذہب ہمیں متحد رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے  بشرطیکہ مذہب کے نام پر معاشرے کو تقسیم کرنے کی اجازات نہ ہو تو۔مگر ہمیں معاشی و سماجی مساوات اور  علاقائی رنگ وثقافت کےمناسب احترام  کی کلیدی حیثیت کو نہ صرف ماننا ہوگا بلکہ اس کےلیے عملی جدوجہد کرنا ہوگی۔ وگرنہ ہم سقوط ڈھاکہ کی صورت میں دیکھ چکے ہیں کہ مفلسی،ناانصافی اور نسلی ولسانی تعصبات مذہب کی تمیز بھی ختم کر دیتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ  جو بغاوت کامیاب ہو جائے وہ  تاریخ میں تحریکِ آزادی کے طور پر یاد کی جاتی ہے۔ملکی سالمیت کے لیے ،محض جغرافیائی سرحدوں  کی مستعد حفاظت نہیں، بلکہ سرحدوں کے اندر دلوں کا ایک ساتھ دھڑکنا بھی ضروری ہے۔

Saturday, February 12, 2011


فاعتبروا یا اولا ابصار
رفیع اللہ
آمر چلا گیا---------آمر چلا گیا----------ہم نے سالوں بھگتا------------آمر چلا گیا------------آمر چلا گیا-------------آمر چلا گیا۔ یہ الفاظ جی جی ابراہیم نے خوشی سے روتے ہوئے کہے۔وہ قاہرہ کے میدان التحریر سے ایک انگریزی ٹیلیوژن سے بات کررہی تھی۔
اب سے صرف سترہ گھنٹے پہلے جب سیاہ رُو آمر نے نہایت ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئےخلقِ خدا کو سننے سے انکار کردیا تو جو پہلا خیال میرے ذہن میں آیا وہ تھا کہ شاید خدا نے فرعونِ جدید کو مزید ذلیل کرنے کافیصلہ کر لیا ہے۔اور آخر کار سالوں طویل ظلمتِ شب تما م ہوئی۔ بے توقیری فرعونِ مصر کا مقدر ہوئی ۔ وادیِ نیل میں کل ایک نیا سورج طلوع ہوگا۔آزادی کا سورج-------امید کا سورج------------انصاف کا سورج------------جبر کے خاتمے کا سورج۔
امریکہ ،یورپ اور اسرائیل کا کلیدی اتحادی،مصر کا بلاشرکتِ غیرے مالک حسنی[غیر] مبارک شاید اِس وقت روئے زمین پر کسی محفوظ پناہ کی تلاش میں ہوگا۔کہتے ہیں آمر کی جان اقتدا ر میں ہوتی ہے۔گویا آج چشم فلک نے ایک آمر کو اس حال میں مرتے دیکھا کہ اُس نے اپنی موت کے پروانے پر خود مہرِتصدیق ثبت کی ۔
محض چند دن پہلے میں نے ایک کارٹون دیکھا جس میں اُبامہ نے ایک ہاتھ سے حسنی کا کان پکڑا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ میں تازیانہ۔فاعتبرو یا اولاابصار۔تاریخ کا تازیانہ،عوامی نفرت کا تازیانہ اور سب سے غیر متوقع اپنے ہی سیاسی خداوں کا تازیانہ۔جیسا کہ میدان التحریر سے پُھوٹنے والی کرنیں صرف وادیِ نیل تک محدود نہیں رہیں گی۔کیا دُنیا کے آمر کچھ سیکھتے ہیں؟
مگر عبرت تو اہلِ بصارت پکڑتے ہیں نہ کہ وہ ،اقتدار کا موتیا، جن کی آنکھوں پہ چڑھا ہوا ہو۔

Friday, February 11, 2011

ایک فرد سے ناانصافی پورے معاشرے سے ناانصافی
رفیع اللہ
گذشتہ عشرے سے ہمارے معاشرے میں افراد کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے ردعمل میں ایک رویے نے جنم لیا ہے۔یعنی جب کسی فرد ،خاندان، یا کسی گروہ کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوتی ہے تو متاثرہ فرد،خاندان یا گروہ ہمیں سراپا احتجاج نظر آتا ہے۔اور باقی معاشرہ ایسے غیر متعلق رہتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔یہ ناانصافیاں قتل سے لے کر کسی خاص شہر یا علاقے میں بجلی کی غیر اعلانیہ ، غیر معمولی بندش تک پھیلی ہوئی ہیں۔تقریباً پچھلے پانچ سالوں میں اس طرح کے مظاہر وں کی تعداد اچھی خاصی بڑھ گئی ہے۔مظا ہرین عام طور پر کسی سڑک کو بند کر کے، ٹائر جلا کر یا اپنے کسی پیارے کا لاشہ سامنے رکھ کر اپنا غم غلط (Catharsis)کر تے ہیں اور سرشام خشک گلوں، یژمردہ چہروں اور خاک آلود پیرہنوں کے ساتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔اگلی صبح معدے میں اُٹھتی ہوئی بھوک کی ٹیسیں ستمِ گذشتہ کی تلخی بھلا دیتی ہیں۔بقا کی جبلت آڑے آتی ہے اور زندگی پھر اُسی ڈگر پر کسی تازہ ستم کی تلاش میں نکل پڑتی ہے ۔اگلے دن یہی کہانی ارضِ پاک کے کسی اور گوشے میں دہرائی جاتی ہے۔دستِ ستم ہے کہ تھکتا نہیں۔
یا اللعجب ہم سوچنا نہیں چاہتے یا جبرِمسلسل نے غوروفکر کی صلاحیت ہی مصلوب کر دی ہے۔ہم انفرادی واقعات پر غیر معمولی رد ِعمل کا اظہار تو کرتے ہیں مگر انصاف پر مبنی فلاحی معاشرے کے قیا م کے لیے کسی اجتماعی کوشش کو شروع کرنے سے قاصر ہیں۔صر ف خود سے ہونے والی ناانصافی کو ناانصافی سمجھتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ جوبھی ہوتا ہے اُسے اپنا مسئلہ نہیں سمجھتے۔ہم صرف اس قدر انصاف اور حقوق کے متمنّی ہیں کہ بس جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھا دی جائے۔ایسی صورت میں کیا ہم کسی بھی انصاف کے مستحق ہیں؟
فکرِ روز گا ر نے ہمارے ذہنوں کو اس قدر مفلوج کر دیا ہے کہ اپنی ذات سے باہر ہمیں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔جو طبقہ فکرِ روزگا ر سے بے پرواہ ہے وہ انصاف کو بھی خریدنے کی صلاحیت رکھتاہے اس لیے انصاف اُس کا مسئلہ نہیں ہے۔اور ویسے بھی ناانصافی اور کمزور کی شناسائی تو تہذیتِ انسانی کے آغاز سے ہی ہے۔بھیڑیا ہر روز ہمارے ریوڑ سے ایک بھیڑ کو ہلاک کر جاتا ہےمگر ہم آسودہ فکر ہیں کہ شاید ہماری باری کبھی نہیں آئے گی۔
اب ہمارے سامنے دو راستے ہیں ایک یہ ہےکہ ہم اپنی باری کبھی نہ آنے کی خود فریبی میں آسودہ خاطر رہیں۔دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم ایک فرد کے ساتھ ناانصافی کو پورے معاشرے کے ساتھ ناانصافی سمجھیں اور اُٹھ کھڑے ہوں ……….کہیں بس بھائی بس………….اور دست ِقاتل کو جھٹک دیں۔
ہم کوئی فیصلہ کریں یا نہ کریں تاریخ اپنا فیصلہ ضرور صادرکرے گی۔