Difficulty in reading Urdu text?

If it is difficult to read Urdu text or you preferably wish to read in "Nastaleeq" please click here to download and install Urdu font. If you want to type in Urdu as well please follow the instructions given on this website.

Thursday, March 17, 2011

خدائے امریکہ بزرگ وبرتر کے نام
(ریمنڈ ڈیوس کی رہائی پر)
رفیع اللہ
جو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔جسے چاہتا ہے اقتدار دیتا ہے جسے چاہتا ہے اقتدار سے محروم کر دیتا اور جسے چاہتا ہے پھر اقتدار دیتا ہے۔جسے چاہتا ہے امیر العساکر بنا دیتا ہے۔جس کی بارگاہ میں بڑے سے بڑا قاضی القضاۃ  بھی دست بستہ پیش ہوتا ہے۔سب تعریفیں وزارتوں اور عہدوں کے رب کے لیےجو رازق بھی ہے اور مالک بھی۔بے شک وہ اپنے پسندیدہ بندوں کو ملک و سلطنت بخشتا ہے۔سب عظمتیں اسی کو زیبا ہیں کہ جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے-------حاکموں کا حاکم ۔
مردود ہیں وہ جو ایمان نہیں لاتے، نہیں لاتے تو نہ لائیں، کہ عزت و اختیار تو اُس کے پسندیدہ بندوں کے پاس ہی ہے اور رہے گا۔اور اُس وقت تک رہے گا جب تک  وہ اپنے آقا کے وفا کیش و  ثنا خواں رہیں گے۔ہاں وہ خود اپنے بندوں کے درمیان دنوں کو پھیرتا رہتا ہے۔اور منکرین یوں ہی چوہوں کی سی زندگی بسر کرتے رہیں گے کہ دلوں میں تو نفرت رکھتے ہیں مگر عملاً  خدائے امریکہ  تو کیا اُس کے ادنیٰ غلاموں کے سامنے بھی دم مارنے کی ہمت نہیں رکھتے  ۔اور ان میں بعضے ایسے ہیں کہ خدائے امن کی ہجو سے لذت کشید کرتے ہیں اور بعضے ایسے ہیں کہ  جو نفرت بھی کرتے ہیں اور اسکی نوازشات کے  متمنی بھی ہیں۔
یہ منکرین دیکھتے نہیں ہیں کہ جوصاحبانِ تحریروتقریر اُسکی تعریف وتعظیم میں جتے رہتے ہیں اُن پر وہ کتنا مہربان ہے۔وہ ثناخوانوں کو اپنے در پہ بلاتا ہے، انعام واکرام سے نوازتا ہے اور ان کو بہت کچھ عزت ومرتبہ دیتا ہے۔اپنے رب سے مل کر وہ ایسے ہوجاتے ہیں کہ ہر وقت اُس کی شان میں رطب اللسان رہتے ہیں۔
لعنت ہو ان منافقین پر جو غلاموں کی سی زندگی  بسر کرتے ہیں اور شاد کام رہتے ہیں۔ان میں سے بعضوں کو اس حالت میں ہلا ک کیا جاتا ہے کہ اُنھیں ہلاک  کرنے والے کی خبر تک نہیں ہوتی۔خداوند کبھی ان پر اپنے ابابیل بھیج کر آگ اور بارود برساتا   ہے تو کبھی اپنے سورماوں کو ان کی بیخ  کنی کے لیے بھیجتا ہے۔جو ان کو ان کے گھروں میں جا کر  ہلاک کرتے ہیں۔اور اپنے بندوں کا اس قدر حامی و ناصر ہے کہ موت کے منہ سے اُنھیں بچا لیتا ہے۔اور اس حال میں کہ گستاخانِ خداوند امریکہ  گریہ  کرتے رہ جاتے ہیں۔اور وہ مستحق ہیں اس سلوک کہ ان کی سعی مرثیہ خوانی سے شروع ہوکر مرثیہ خوانی پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔تفرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو ہلاک کرتے ہیں۔عقائد پر بہت کچھ زور دیتے ہیں مگر معا ملات میں اپنی جبلتوں کے   اسیرہیں۔
اور جب اُس کا غضب جوش میں آتا ہے تو شہروں کے شہر پل بھر میں صفحہ ہستی سے اس طرح مٹا تا ہے کہ آئندہ نسلیں بھی نشان عبرت بن جاتی ہیں۔پلٹ اُس کی طرف جس نے ملکوں کے ملک تیرے سامنے پیوند خاک کر دئیے۔

Wednesday, March 9, 2011

پھر بھی نہیں لوٹتی نظر ادھر کو کیا کیجے؟
رفیع اللہ
۸ مارچ ۲۰۱۱ کو عالمی کپ کے سلسلے میں ہمارا نیوزی لینڈ کی ٹیم کے ساتھ کرکٹ میچ تھا۔میچ ارض پاک سے کوسوں دور سری لنکا کے میدان میں ہو رہا تھا۔گو میچ  مقامی وقت کے مطابق دن ۲ شروع  بجے ہونا تھا مگر ہم صبح سے ہی انتظار میں تھے۔بالآخر میچ شروع ہوا۔ہم جہاں کہیں بھی تھےٹیلی ویژن کے سامنے براجمان ہو گئے۔ہم میں سے کچھ دفاتر سے جلد لوٹ آئے کہ گھر میں سکون سے اہل ِخانہ کے ساتھ بیٹھ کرمیچ سے لطف اندوز ہونگے ۔جہاں کہیں ممکن ہوسکا ہم  نےقدِآدم سکرینوں کا بندوبست بھی کیا ۔حتیٰ کہ ہم نے ہر وہ اہتما م کیا جو  اس میچ کو لطف اندوز بنانے کے لیے ضروری تھا اور جس کی پاکستانی ہونے کے ناطے ہم سے توقع کی جاسکتی ہے۔
میچ کی ابتدا تو  خاصی حوصلہ افزا تھی مگر پھر صورت حال بدلنے لگی۔ہماری وکٹ پہ وکٹ گرنے لگی ۔ بہت جلد اور آسانی سے ہم یہ معرکہ ہار گئے۔ہمارے لیے یہ تلخ  گھونٹ بھرنا بہت مشکل تھا۔بہت دکھ ہوا اور پاکستانی کھلاڑیوں پہ غصہ بھی بہت آیا ۔ایسے محسوس ہوا جیسے دانت کے نیچے ریت کا ذرہ آجائے تو محسوس ہوتا ہے۔جوکھلاڑی اچھا نہیں کھیلے اُن کو خوب گالیا ں دیں۔دل چاہا  جا کر اُن کے گھر پر پتھروں  کی بارش برسا دیں۔سماجی رابطے کی ویب سائٹوں سے کھلاڑیوں کے گھروں کے پتے تو معلوم ہو ہی گئے تھے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر آزادی ِ اظہار  خیال کا پورا پورا فائدہ اُٹھاتے ہوئے غم غلط کرنے کی کوشش کی مگر کچھ آفاقہ نہیں ہوا۔رات بے کیف گزری اور دن بھی بوجھل بوجھل سا گزر رہا ہے۔
میچ شروع ہونے سے کوئی چار گھنٹے پہلے فیصل آباد میں تقریباً ۲۵ پاکستانی زندگی کی وکٹ ہار گئے۔اور میچ ہارنے کے  اگلے ہی دن  صبح صبح پشاور کے قریب مزید۴۰ پاکستانی زندگی کا میچ ہار گئے۔ہا ں یہ سب المناک ہے مگر کرکٹ میچ ہارنے کا صدمہ اس قدر ہے کہ اور کچھ سوجھتا ہی نہیں۔۳۶ گھنٹوں میں ۶۵ انسانی جانوں کا زیاں اہم ہے مگر پھر بھی نہیں لوٹتی نظر ادھر کو کیا کیجے؟