Difficulty in reading Urdu text?

If it is difficult to read Urdu text or you preferably wish to read in "Nastaleeq" please click here to download and install Urdu font. If you want to type in Urdu as well please follow the instructions given on this website.

Wednesday, September 14, 2011

کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا


کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

رفیع اللہ

جب ہمیں مرد ِبیمار کا مطلب بھی پتہ نہیں تھا    لوگ ترکی کو یورپ کا مردِبیمار کہہ رہے ہوتے تھے ۔جو تھوڑی بہت سمجھ آئی اُس کے نتیجے میں نہ مصطفیٰ کمال پسندیدہ شخصیت بنے اور نہ جدید ترکی پسندید ہ ملک۔گو مجھے آج تک وجہ معلوم نہیں مگر تُرکی کے متعلق دو باتیں سخت ناگوار گزرتیں پہلی یہ کہ ترکی ایک سیکولر ملک ہے اور دوسر ی یہ کہ ترکی یورپی یونین کی رُکنیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اور پھر مئی ۲۰۱۰ میں ایک نئے ترکی سے تعارف ہوا۔جب ایک پُر امن امدای کشتی پر اسرائیلی فوج  کے حملے میں نو ترک کارکن جاں بحق ہوئے۔جس پر تُرکی کا ردِعمل ایک حقیقی طور پر آزاد اور خود مختار ملک جیسا تھا ۔اور آج مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ترکی کے وزیرِاعظم رجب طیب اردگا ن کی اذانِ سحرگونج رہی ہے۔وہی سحر جس کی نوید اسی نوے سال پہلے شاعرِمشر ق نے دی تھی،
اگر  عثمانیوں  پر   کوہِ غم   ٹوٹا  تو  کیا   غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
            خدا کرے یہ صدا جگر سوختہ فلسطینی ماوں کے لیے  نوید سحر بھی ثابت ہو  اور طیب اردگان جس جماعت کے درمیان  صدائے تکبیر بلند کرنے گئے ہیں اُس کی آستینوں سے بت بھی گریں۔
اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل!
''
نوا  را  تلخ  تر  می  زن چو    ذوق   نغمہ  کم یابی''

Sunday, August 21, 2011

امید و مایوسی کے درمیان

امید و مایوسی کے درمیان
(اگست۲۰۱۱ کے موقع پر)
رفیع اللہ
پاکستان چونسٹھ بر س کا ہوگیا۔پاکستان کا ماضی بہت زیادہ روشن نہیں ہے اور حال کا حال بھی   بُرا ہے۔اگر مختصر ترین الفاظ میں بیان کیا جائے  تو کیفیت کچھ ایسی ہے۔   آج پاکستان کی گٹھری میں اخلاقی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ایک معاشرہ ہے۔اخلاقی گراوٹ کا یہ حال ہے کہ اشارہ توڑنے سے لے کر قتل تک  اور بچوں کے دودھ میں ملاوٹ سے لے کرانسانی اعضا کی چوری تک ہر قبیح جُرم ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے۔عدم  بر داشت ہماری نفسیات کا جزوِ لاینفک بن چکا ہے۔ معیشت آخری سسکیاں لے رہی ہے اور بدعنوانی بام عروج پر ہے۔ملک قرضوں پر چل رہا ہے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر انحصار اس قدر کہ اشیائے ضروریہ کی پرچون قیمتوں تک وہ طے کر رہے ہیں۔ زمامِ ریاست دوراندیشی سے عاری   بے کردار سیاستدانوں اور عسکریوں کے  ہاتھ میں ہے۔مخصوص جغرافیائی محلِ وقوع ، ماضی کے کرتوت اور عالمی طاقتوں کی خطے میں دلچسپی گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں۔
 آبادی مختلف لسانی اورنسلی خطوط کے ساتھ بٹی ہوئی ہے۔یہ تقسیم کہیں کہیں اتنی شدت اختیار کر گئی ہے کہ لسانی یا نسلی شناخت ملکی شناخت پر فوقیت حاصل کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔بلوچستا ن میں معاشی ناانصافیوں کے ردِعمل نے نسلی تعصب کو اس قدر شدید  کردیا ہے کہ ریاست کو تقریباً تقریباً اندرونی بغاوت کا سامنا ہے۔اور فوج اپنے ہی شہریوں کے خلاف مصروفِ جنگ ہے۔درد کا درماں کرنے کی بجائے نفرتوں کے ناسور پر نمک پاشی کی جارہی ہے۔ جبکہ کراچی میں مختلف لسانی گروہ آپس میں برس پیکار ہیں ۔امن و امان کے ذمہ دار ریاستی ادارے عضو معطل بن کر رہ گئے ہیں۔
پھر نظریاتی اعتبار سے معاشرہ بُری طرح تقسیم کا شکار ہے۔ایک مخصوص طبقہ نہ صرف مذہب کا انکاری  ہے بلکہ مذہب کو ہر بُرائی اور خرابی کی ماں  سمجھتا ہے۔اس قبیل کے لوگوں کا خیال ہے کہ مذہب ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ اور استحصال کا خطرناک  ترین ہتھیار ہے۔لہٰذا ایک جدید ترقی پسند ریاست کے قیام کے لیے ریاستی اُمور سے تو قطعی طورپر اور معاشرے سے کسی حد تک مذہب کو خارج کرنا ہوگا۔اس طبقے کے ہاں مذہبی لوگوں کے لیے برداشت تقریباً صفر ہے ۔مگر ایسے لوگ تعداد میں اقلیت اورعوامی مقبولیت سے محروم  ہیں۔معاشرے کی معاشی اور سماجی ساخت کے اعتبار سےاِن  میں سے بیشتر طبقہِ بالا سےتعلق رکھتے ہیں۔یہاں مذہب اور دقیانوسیت  کا ایک ہی مطلب لیا جاتا ہے۔
دوسری طرف اُن لوگوں کا اکثریتی  گروہ ہے جو مذہب سے کسی نہ کسی سطح کی وابستگی ضرور رکھتا ہے۔مذہب سے وابستگی میں شدت کے اعتبار سے یہ لوگ انتہائی متنوع ہیں۔ اس گروہ کی غیر معمولی اکثریت کو  کچھ مثتثنیات اور تحفظات کے ساتھ معتدل کہا جا سکتا ہے۔ سماجی ومعاشی اعتبار سے  زیادہ تر متوسط اور نچلے طبقات کے لوگ ہیں۔اس گروہ کا ایک معقول حصہ مذہبی نظریات میں خاصا متشدد ہے۔ان کےنزدیک ہمارے تمام مسائل کی جڑمذہب کا بطور مکمل نظام ِریاست رائج نہ ہوناہے۔ان میں سے کچھ لوگ اس مقصد کے حصول کے لیے عملی جدوجہد کے قائل ہیں۔مذہب کے بطور نظام ِریاست نفاذ  کے لیے ایک طبقہ سیاسی سطح پر کوشاں ہے جبکہ ایک دوسرا طبقہ مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ان متشدد طبقات کے ہاں  آزاد خیالی تو کجا اعتدال  کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔یہاں دلیل کا گَلہ گاہے شریعت کی تلوار سے کاٹا جاتا ہے۔
افغانستان پر روسی حملے سے لیکر امریکی حملے تک ہماری یکسر مختلف حکمت ِعملیوں اورخیبر پختونخواہ میں مذہب سے قدرے شدید وابستگی کے سبب ریاست کو ایک دوسری بغاوت کا سامنا ہے ۔ یہاں بھی فوج اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف صف آرا ہے۔
اس تناظر میں معاشرے کو تین بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔یعنی انتہائی آزاد خیال،معتدل اور انتہائی مذہبی۔اول الذکر اور آخر الذکر دونوں  اقلیت میں ہیں جبکہ معتدل طبقہ دراصل عوام ہیں۔انتہائی مذہبی اور انتہائی آزاد خیال طبقات کے درمیان نظریاتی رسہ کشی میں عوام رسہ بنے ہوئے ہیں۔
مذہبی اکثریت کی داخلی صورت حال بھی انتہائی پتلی ہے۔مذہبی منافرت  شاید اس سے پہلے اس معاشرے میں کبھی اس قدر شدید نہیں رہی ہوگی ۔فرقہ واریت  کا سرطان پورے معاشرتی جسم میں بُری طرح پھیل چکا ہے۔منبر و محراب ،جہاں سے اصلاح کے چشمے پوٹھنے کی توقع تھی ،فساد و شر کا پرچارکرنے میں مصروف ہیں۔مذہبی اکثریت کا اقلیتوں سے سلوک بھی انتہائی متعصبانہ اور استحصال پر مبنی ہے۔ جو کوئی چند ایک مذہبی لوگ ان تمام لعنتوں سے بچ رہے ہیں وہ اپنے دامن کو چھینٹوں سے بچانے جیسی خود غرضانہ سوچ کے تحت پسِ منظر میں چلے گئے ہیں۔اورپھر جس کسی نے آواز بلند کرنے  کی کوشش کی بھی اُسے ابدی نیند سُلا دیا گیا۔
معاشی اور سماجی اعتبار سےمعاشرتی قطبیت اپنی انتہاوں کو چھور ہی ہے۔متوسط طبقہ تیزی سے انحطاط کا شکار ہے۔متوسط طبقے کی اکثریت  معاشی پستی میں گررہی ہے  جبکہ طبقہ ِبالا  بالاتر ہورہا ہے۔غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کو زندگیاں بہتر بنانے کےمواقع تو دور کی بات  بے روزگاری کا اژدھامتوسط طبقے کوبھی تیزی سے نگل رہا ہے۔اور یوں معاشرتی بُرائیوں کی ماں بے روزگاری خوب پنپ رہی ہے۔تعلیمی نظام بھی طبقاتی تقسیم کی لعنت  میں لتھڑا ہوا ہے۔امرا کے لیے نجی انگریزی تعلیمی ادارے ،متوسط طبقے کے لیےسرکاری اُردو سکول اور غربا کےلیے مذہبی مدرسے ہیں۔یوں  طاقت کے دیگرمواخذ کے ساتھ ساتھ تعلیم پر بھی  مقتدر طبقے کی اجارہ داری ہے۔تعلیم اور انگریزی خوانی  کے ہتھیار  کومتوسط اور نچلے طبقات کے استحصال کے لیے نہایت چابکدستی سے استعمال کیا جارہاہے ۔
تقریباًساٹھ فیصد آبادی آج بھی کسی نہ کسی طرح زراعت سے وابستہ ہے اور دیہاتوں یا قصبوں میں رہتی ہے۔زرعی اور دیہی معاشرے میں برادری اور قبائلی نظام خاصے مضبوط ہیں جس کی وجہ سے جمہوریت کا مغربی پودا کچھ زیادہ بارآور ثابت نہیں ہوسکا۔پھراختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی اور مقامی حکومتوں کے قیام کواقتدار پر قابض اقلیت نےممکن نہیں بننے دیا۔جس سے نہ تو وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہوسکی اور نہ ہی عوام کی جمہوری تربیت۔
                ہمارا مجموعی مزاج ایسا بن کر رہ گیاہےکہ کوئی ناکامی، داخلی یا خارجی، جب ہمارے گلے کا ہار بنتی ہے تو بجائے اسباب کھوج کر آئندہ کے لیے سبق سیکھنے کے ہم آنکھیں ملتے ہوئے اسے یہود ،ہنود اور نصاریٰ کی سازش قرار دے دیتے ہیں اور پھر کروٹ بدل کر سوجاتے ہیں۔بالکل ایسے ہی جیسے کسی بسیار نوش کے ہاتھوں اگر جام ڈھلک جائے تو اُسے یہ حضرت ناصح ہی کی شرارت لگتی ہے۔
                یہ ہیں وہ حالات جن میں پاکستان کا چونسٹھواں یوم آزادی منایا گیا۔ اور تو اور ہم تو اس بات پر بھی تقسیم ہیں کہ   اِن حالات میں کوئی امید باقی ہے یا بس مایوسی ہی مایوسی ہے۔اگر تقسیم نہیں ہیں تو مخمصے میں ضرور ہیں کہ پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا۔کچھ  تو انتہائی غیر یقینی کا شکار ہیں اور مکمل طور پر مایوس ہیں۔جبکہ کچھ ضرورت سے زیادہ پُر اُمید ہیں اُن کا اعتقاد ہے چونکہ پاکستان ایک خدائی معجزہ ہے اس لیے اسے کبھی کچھ نہیں ہوگا۔یہاں ایک تیسرہ گروہ بھی ہے جسے مسائل کی سنجیدگی،شدت اور گہرائی کا ادراک بھی ہے اور وہ مایوس بھی نہیں ۔بلکہ کہیں خاموشی سے اور کہیں کھلے بندوں  جہاں ہیں جیسے ہیں جو کررہے ہیں کی بنیادپر عملی جدوجہد میں مصروف ہیں ۔اگرچہ یہ لوگ تعداد میں کم ہیں مگر سرنگ کے آخری سرے پر نظرآنے والی کِرن یہی گم نام سپاہی ہیں۔بس ضرورت اس اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کی ہے۔اور بہترین شروعات اپنی ذات ہے۔

Saturday, August 6, 2011

بہ ہر سُو رقصِ بسمل بود


بہ ہر سُو  رقصِ بسمل بود
رفیع اللہ
میں سکول کے زمانے  میں اپنے ماموں کے ساتھ جنگلی کبوتروں کے شکار پر جایا کرتا تھا۔ماموں  گھات لگا کر کبوتروں کے جھُنڈ پر بارہ بور بندوق سے چار نمبر کا کارتوس چَلاتے تھے۔گولی کی آواز کے ساتھ ہی ہم بھاگ  کر جاتے اور دیکھتے کہ کتنے کبوتر گرے ہیں اور جو ہم میں سے پہلے پہنچتا  اور پہلے اندازہ لگا چکتا وہ چیخ کر کہتا ………………………………پانچ گرے ہیں……………ارے وہ دیکھو ایک اور بھی ہے  ۔بڑا ہی پُر کیف منظر ہوا کرتا تھا کسی کبوتر کو چَھرہ آنکھ میں لگا ہوتا تھا تو کسی کے پیٹ میں……………کسی کا پر ٹوٹا ہوتا تھا تو کسی  کی ٹانگ  …………… حسب توفیق ہر کبوتر پھڑ پھٹرا بھی رہا ہوتا تھا۔پورا سماں  "بہ ہر سو رقص بسمل بود" کی تصویر نظر آتا ۔
 خیرسکول کا زمانہ گزر گیا لیکن میں ابھی تک یہی سمجھتا رہا کہ شکا ر صرف جنگلوں میں  جا کرجنگلی جانوروں اور پرندوں کا کھیلا جاتا ہے۔مگر اب معلوم پڑا ہے کہ نہیں شکا ر تو شہروں میں بھی کھیلا جاتا ہے۔اور یہ شکار جنگلوں میں کھیلے جانے والے شکار سے کہیں زیادہ دلچسپ ہوتا ہے۔جنگلوں میں تو ہم کبوتروں،فاختاوں،خرگوشوں اور ہرنوں کا شکار کرتے ہیں۔لیکن شہروں میں انسان شکار کیے جاتے ہیں۔عمومی شکار تو گولی سے ہی ہوتا  لیکن باذوق شکاری گرینیڈ اور بم کا استعمال بھی کرتے ہیں۔اگر کہیں بزدل انسانوں کو شکار کرنا ہو جو کسی گھونسلے میں چھپے بیٹھے ہوں تو پھر خود کُش شکاریوں کوزحمت دینا پڑتی ہے۔اکثر اوقات تو ان مناظر کو فلمایا بھی جاتا ہے۔لہٰذا اگر آپ براہ راست کھیل میں شریک نہ بھی ہوں تو ان مناظر سے یکساں طور پر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
شہر کا شکار جنگل کے شکار سے کہیں مختلف ہے۔یہاں مردہ، نیم مردہ اورپھڑپھڑاتے شکار  کی براہ ِراست فلم دکھانے اورشکار شدہ انسانوں کو گننے کے لیے باقاعدہ ادارے قائم ہیں ۔ان اداروں کے لوگ جلد سے جلد شکا رکے میدان میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔کھیل کے میدان  کی صورتِ  حال کیا ہے،کتنے لوگ شکار ہوئے ہیں وغیر ہ کی تفصیل بتانے میں وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔پھر بڑی جانفشانی سےشکار ہونے  والوں کے کوائف سے لے کر موقع پر موجود تماش بینوں کے احساسات تک  کو نشر کیا جاتا ہے تاکہ دور بیٹھے تماش بین بھی پوری طرح لذّت کشید کر سکیں۔
آغاز کے دنوں میں اس کھیل میں عوامی دلچسپی دیدنی ہوتی تھی۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ عوامی دلچسپی میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔مگر جس شدت سے یہ کھیل جاری ہے اُس سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید کھیل کے منتظمیں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عوام اُن کے کھیل میں کس قدر دلچسپی لے رہے ہیں۔خیبر پختونخواہ میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور بلوچستان میں شکار شدہ جسموں پر کندہ کاری سے اس کھیل کو دلچسپ بنانے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔کراچی میں شکار کھیلنے کا انداز خیبر پختونخواہ اور بلوچستا ن سے مختلف ہے۔یہاں شکار شدہ جسموں کو بوریوں میں محفوظ کر دیا جاتا ہے۔کشمیر اور پنجاب میں یہ کھیل اُس طرح فروغ نہیں پا سکا جس کے لیے سرکاری اور عوامی ہر دو سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے۔
شکارکے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں،شکاری مختلف ہو سکتے ہیں مگر کھیل ایک ہی ہے۔ہماری سرزمین اِس کھیل کے لیے اِس قدر موزوں ہے کہ امریکی بھی ہمارے ملک میں آکر  شکار کھیلنا پسند کرتے ہیں۔امریکیوں کے علاوہ زیادہ تر شکاری مقامی ہیں۔سرکاری تربیت یافتہ شکاریوں کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری شکاری بھی اُسی جوش وجذبے سے مصروفِ کار ہیں۔مجھے معلوم نہیں ہمارا قومی کھیل کون سا ہے مگر میری بھرپور استدعا ہے اب سے  "شکار" کو ہمارا قومی کھیل قرار دیا جاناچاہیے۔

Sunday, May 1, 2011

یومِ مئی

رفیع اللہ
میں بھی اپنے کروڑوں ہم وطنوں کی طرح آج یوم مئی منا رہا ہوں۔صبح صبح [1]اُٹھ کر  ابھی اخبار نہیں پڑھا مگرمجھے پورا یقین ہے کہ جناب ِصدر،وزیراعظم ، وزرائے اعلیٰ اور دیگر متعلقین اس حوالے سے اپنے بیان جاری کرچکے ہوں گے۔اس لیے مجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور ویسے بھی میں کوئی صدر یا وزیراعظم تھوڑا ہی ہوں جو بیان جاری کرتا کہ بیان جاری کرنا تو ان ہی کا  کام ۔گویا جس کا  کام اسی کو ساجھے۔رہامسئلہ مزدور تنظیموں کا تو ضرور وہ بھی آج اپنے قائدین کے اظہار خیا ل کے لیے جلسے جلوس منعقد کر رہی ہوں گی۔کہ بیچارے مزدور راہنماوں کو سال میں ایک دفعہ ہی تو موقعہ ملتا ہے ۔ویسے مجھے آج تک کسی مزدور راہنما سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا سوائے ایک کے اور اُسے دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ مزدوروں  پر ہو نہ ہو مزدور راہنماوں پر تو خدا بہت ہی مہربان ہے۔خوبرو،تعلیم یافتہ ،فر فر انگریزی بولتا نوجوان۔ مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ قدرت بھی جہاں ایک دفعہ مہربان ہوتی ہے کھل کر ہوتی ہے۔ آپس کی بات  ہے موصوف کی  ’’دوست دُختر‘‘ [2]کو دیکھ کر تو  میرا  بھی مزدور راہنما بننے کو بہت دل کرتا ہے۔مزدوروں کے حقوق کے لیے لڑنے والی غیر سرکاری تنظیمیں بھی آج کے دن کو منا رہی ہوں گی کہ ساراسال تو لڑنے میں گزر جاتاہے ۔یہ بیچاری تنظیمیں اس قدر شدت سے لڑتی ہیں کہ لڑتے لڑتے ان کا سارا اسلحہ  میر امطلب ہے  ’’فنڈز‘‘ ختم ہوجاتے ہیں اور ان کو سال میں کئی مرتبہ  ’’فنڈنگ پرپوزل ‘‘ کی طرف پسپائی اختیا ر کرنی پڑتی ہے۔ویسے جب سے مجھے  غیر سرکاری تنظیموں کے دُکھ درد کا پتہ چلا ہے میر ی دلی ترین  خواہش ہے کہ ایک غیر سرکاری تنظیم بناؤں لیکن مطلوبہ اہلیت [3]نہ ہونے کی وجہ سے سخت مایوس ہوں۔
خیر بات ہورہی تھی یومِ مئی منانے کی تو جدید ٹیکنالوجی کی آمد سے اب کچھ بھی منانا بہت آسان ہو گیا ہے۔اور نوجوان نسل کا نمائند ہ ہونے کی حیثیت سے میں بھی ٹیکنالوجی کا بھر پور استعمال کر تا ہوں۔اب یہ پچھلی عید میلاد کو ہی لیجیے۔’’یوٹیوب‘‘ سے نعتیں ڈھونڈ  ڈھونڈ کر ’’فیس بک ‘‘[4] پر لگا کر دونوں ہاتھوں سے ثواب لوٹا۔ایک ہفتہ پہلے اپنے موبائل فون کی  ’’کالر ٹیون ‘‘ پر نعت لگائی۔اپنے تمام جاننے والوں پر ’’ درود میسج‘‘  بھیجتا رہا بلکہ  ’’درو میسج‘‘ بھیجنا تو  اب میں نے عادت بنا لی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ احادیث  اور اقوال ِبزرگان کے میسج بھی باقاعدگی سے بھیجتا ہوں۔زیادہ کوفت اس لیے نہیں اُٹھانا پڑتی کہ میرے مہربان مجھ پر میسج بھیجتے رہتے ہیں اور مجھے تو  بس  ’’فارورڈ‘‘ ہی کرنا ہوتےہیں۔رہا سوال پیسوں کا تو  ایک ’’نجی ضرورت‘‘ کے پیشِ نظر میسج پیکج لگوایا ہوا ہے گویا ایک تیر سے دو شکار،جیسے پنجابی میں کہتے ہیں نالے حج نالے وپار[5]۔اس طرح احیائے دین اور’’ اصلاحِ دیگران ‘‘ کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو خوب استعمال کرتا ہوں۔جدید ٹیکنالوجی کے غیر مسلمان  موجدین کو خبر تک نہیں ہو گی کہ اُنھوں نے ثواب حاصل کرنا ہمارے لیے کس قدر آسان کر دیا ہے۔مجھے پورا یقین ہے کہ اگر اُنھیں اس کا ذرا سی بھی اندازہ ہوتا تو وہ ہر گز یہ سب کچھ ایجاد نہ کرتے۔
میں یوم مئی منانے کی بات کرناچاہتا ہوں لیکن بات کہیں اور چلی جاتی ہے۔بس تو میں بھی آج یومِ مئی منا رہا ہوں۔سوچتا ہوں ہم سے پہلے لوگ کیسے اجڈ تھے کسی کا کوئی دن نہیں مناتے تھے۔نہ’’مدر ڈے‘‘ نہ ’’فادر ڈے‘‘ نہ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ وغیر ہ وغیرہ۔پھر خیال آتا ہے کہ پرانے زمانوں میں دن منانا بہت مشکل ہوتا ہوگا شاید اسی لیے وہ نہیں مناتے ہونگے۔کہ نہ تواُن بیچاروں کے پاس موبائل فون ہوتا ہوگا،نہ آئی فون،نہ  کمپیوٹر،نہ انٹر نیٹ،نہ یوٹیوب  اور نہ ہی فیس بک۔خیر پرانے لوگوں سے مجھے کیا لینا کہ میری اپنی دُنیا ہے اور اپنا وقت بس مجھے اختلاف ان دنوں کی ترتیب وتعد د سے ہے۔میرے مطابق ویلنٹائن ڈے کوسال میں صرف ایک مرتبہ منانا سر سر زیادتی ہے۔کیونکہ یہ نوجوانوں کا  دن ہے۔انھیں نوجوانوں کا جن سے ساری توقعات وابستہ ہیں۔اس لیے نوجوانوں کے مشورے سے اس کے تعدد کو بڑھانا چاہیے۔اس سلسلے میں میری رائے  ہے کہ سال  میں کم از کم ۳۶۵ دن تو ویلنٹائن ڈے کو دیے  جانے چاہییں۔اور اسی تناسب سے فادر ڈے اور مدر ڈے کا تعدد کم کیا جانا چاہیے   کیونکہ  یہ تو ویسے بھی  بوڑھوں سے متعلق ہیں۔
پھر بات کسی اور طرف مڑ گئی۔ہاں تو بس میں بھی یوم مئی  میں آپ کے ساتھ شریک ہوں۔یقیں مانیے صبح سے جتنے بھی ’’یومِ مئی میسج‘‘ مجھ پر بھیجے گئے ہیں سارے  ’’فارورڈ‘‘ کر چکا ہوں۔مزدورں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے وہ  کمپیوٹر،انٹر نیٹ اور فیس بک استعمال نہیں کرتے۔حکومت کو چاہیے کہ ایسے انتظامات کرے کہ مزدور یہ تما م ذرائع استعمال کرسکیں اور جان سکیں کہ اُن کا دن منایا جا رہا ہے وگرنہ تو  ’’ستے بال دا منہ چمیا نہ ماں تے نیک نہ پیو تے نیک‘‘[6]۔مزدوروں کے دیگر مسائل پر بھی روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ایک  تو بوجوہ  میرے پاس زیادہ روشنی ہے نہیں اور دوسر ا وہ مسائل بھی اتنے اہم نہیں ہیں اور تیسرا ا یک  دوست [7]بھی’’آن لائن ‘‘ ہے۔
میں تو اپنا فرض پورا کر چکا ہوں اور امید ہے کہ آپ بھی مجھ سے پیچھے نہیں رہے ہوں گے۔


[1] میری صبح دیہاتیوں کی طرح گردش ِ لیل ونہار کی ہر گز پابند نہیں ہے۔
[2] گرل فرینڈ کا فارسی ترجمہ۔
[3] سب سے اہم اہلیت تو خاتون ہونا ہے ۔دیگر میں کسی سول یا فوجی بیوروکریٹ کی بیوی یا بیٹی  ہونا وغیرہ ہیں۔
[4] کہتےہیں  دُنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتا ب یہی ہے۔
[5] یعنی حج اور بیوپار ساتھ ساتھ۔
[6] پنجابی محاورہ ہے کہ سوئے ہوئے بچے کا منہ چوما ہے نہ اُسکی ماں پر احسان ہوانہ اس کے باپ پر۔
[7] دوست کے ساتھ صنفی توصیف کا اضافہ اس لفظ کے وقار اور اپنی عزت کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔

Saturday, April 9, 2011

        اعلیٰ تعلیم کی اعلیٰ  تحلیل  

ڈاکٹر محمد صبیح انور
اسسٹنٹ پروفیسر فزکس،لمز    یونیورسٹی ،لاہور
یہ بات روز روشن کی طرح صاف اور عیاں ہے کہ اسلامی دنیا میں سائنسی فکر اور تخلیقی مزاج ابھی تک پنپ نہیں پایا۔امت مسلمہ میں علمی اور سائنسی انقلاب کا خواب ہنوز محروم ِ تعبیر ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اعلیٰ ترین حلقوں میں ہماری کم مائگی کے نوحہ خواں اور پرچارک  کثیر تعداد میں مل جائیں گے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ایسے مردانِ آزاد کیش کی اچھی خاصی تعداد بھی ضرور موجود ہے جواس نوحۂ ماتم  کو بانگ ِ رحیل  تصوّر کرتے ہوئے عملی طور پر مستعد نظر آئےگی اور تعلیم وسائنس کے کارزاروں میں جمود انگیز رُجعت پسندی اور جاہلیت کے استحصالی نظام کے خلاف لڑتے دکھائی دے گی۔
پاکستان کا اعلیٰ تعلیمی کمیش یعنی ایچ ای سی  ایک ایسے ہی علمی اور فکری انقلاب کا داعی تصوّر کیا  جاتاہے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمٰن اور اُن کے چنیدہ ساتھیوں نے جو پودا  دس برس قبل لگایا تھا اب وہ تنا ور درخت بن چکا ہے۔جس کی گھنی شاخیں ہمارے ملک کی جامعات، اُن میں پڑھانے والے اساتذہ ،  پڑھنے والے طلبہ وطالبات اور بیرون ملک بھیجے جانے والے نوجوانوں کے مستقبل پر ٹھنڈی چھاؤں کی طرح سایہ فگن ہیں۔ اب ہر درد کی درماں اَ ٹھارویں ترمیم اس قوم پرور  ادارے  کی  بنیادیں کھودنے کے در پے ہے۔ ہمارے منتخب کردہ  لیڈر حضرات بہ جنبش یک قلم اس ادارے کو تحلیل کر کے اختیارات صوبوں اور وفاق کے ذیلی اداروں کے حوالے کردینا چاہتے ہیں۔ میرے اور میرے ہی جیسے ہزاروں استادوں ، سائنسدانوں اور ملک کے لاکھوں طلبہ کی خواہش ہے کہ اس کمیش کو موجود ہ صورت میں بر قرار رکھا جائے۔
میں نے بیرون ملک وظیفے پر پڑھتے ہوئے ۲۰۰۵ء میں طبیعیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ دو سال امریکہ میں بطور محقق کام کیا اور پھر وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ اِنسان پُر آسائش زندگی کا مزہ چکھ لے تو نفس خوگرِ آسائش ہو جاتاہے ۔ ایسے میں کسی بھی پاکستانی کا بیرونِ ملک دلکش زندگی اور شہرت کی چکاچوند ہماہمی کو چھوڑ کر وطن واپس آنا کسی دیوانے کا کام تو ہو سکتا ہے فرزانے کا نہیں۔ مگر ۲۰۰۷ء میں ملک کے سائنسی حلقوں میں ایک گہما گہمی موجود تھی۔ اعلیٰ تعلیم کے تنِ خفتہ میں بیداری کی روح پھونکی جاچکی تھی۔ ساٹھ سال کے سماجی اور معاشی مقاطعے کے بعد اعلیٰ تعلیم  اور سائنسی تحقیق کو بنظر تکریم دیکھا جانے لگا تھا۔محسوس ہوتاتھا کی ملک میں سائنس کے میدان میں فصل بہار پھوٹنے کو ہے۔ یہی احساس تھا جس نے مجھے مجبور کیا کہ ملک میں واپس آؤں اور اپنے دل ودماغ کو نوجوانوں کی آرزوئے علم کی آبیاری کے وقف کردوں ۔
میں آج پاکستان میں اُستادوں اور سائنسدانوں کی پوری جماعت کو دیکھتا ہوں تو مجھے اِن کے چہروں پر طمانیت اور اُمید کی ایسی تابندگی نظر آتی ہے جو لفظوں میں بیا ن کرنا مشکل ہے۔محسوس ہوتا ہے کہ ایچ ای سی ان کے تما م دُکھوں کا مداوا ہے ۔ جن دمہ داریوں کی بجا آوری سے ہمارے ملک کی یونیورسٹیاں مستغنی رہی ہیں ، کمیشن نے اِس خلا کو کمال تنظیم اور منصوبہ بندی سے پُر کیا ہے۔تجرباتی تحقیق کے لیے کثیر رقم کی فراہمی،سائنسی آلات کی دیکھ بھال  اور درستگی،تحقیقی مقالوں کی اشاعت ، بیرون ِ ملک سفری اخراجات، پی ایچ ڈی کی تحقیق کے لیے طلبہ کے لیے وظائف،تحقیقی اداروں سے مفت یا کم قیمت پر جرائد کا حصول ،  معیاری نصابات کی تیاری اور پھر ملک بھر میں   ابلاغِ عام اور کتنے ہی ایسے سینکڑوں منصوبے ہیں جوکمیشن کی زیر نگرانی  رُوبہ عمل ہیں۔ یہی وہ ماحول ہے جسکی آرزو اور تلاش ایک نوجوان سائنسدان کر سکتا ہے۔اور شاید اسی ماحول کی دَین ہے کہ آج ملک میں سائنسی تحقیق اور اس سے برانگیختہ ہونے والے فکری اور تعلیمی انقلاب کاخواب دیکھنے  کا حوصلہ ملتا ہے۔اب ان خوابوں کا وزن کس کسوٹی  پر پرکھیں؟ یہ خواب تو امروز کی صراحی سے ٹپکنے والے قطرے ہیں جو بحرِ فردا میں شامل ہوتے جارہے ہیں۔خوشحالی اور معاشی آسودگی اور تہذیبِ عالم میں باوقار  اور برابری کی سطح پر شمولیت کے اس بحر فردا کی تشکیل میں کئی دہائیاں درکار ہیں مگر ایچ ای سی کی بدولت یہ سفر شروع ہو چکا ہے  ۔  اب اس سفر کو روکنے کا کیا مطلب ہے؟
ایچ ای سی کے کوائف تو سب کے سامنے ہیں۔ اس کی کارکردگی کی کمیتی  جانچ پڑتا ل کچھ مشکل نہیں   اور ابلاغِ عامہ کے ذرائع میں کمیشن کی تحلیل کے بارے میں بحث کا آغاز ہوچکا ہے۔ مگر جہاں میں نے امید کی بات کی ہے وہاں بحث کا ایک اور غیر مرئی لیکن نہایت اہم پہلو یہ بھی ہے کہ قومی ہم آہنگی  میں بھی اس ادارے  کا کردار ہر اعتبار سے مثالی رہا ہے۔ جہاں ہمارے ملک میں نوآبادیاتی نظام  کے وارثوں  یعنی جاگیرداروں اور افسر شاہی نے قومی ترقی  کا گلا دبا دیا ہے اور اداروں کے تسلسل، استحکام  اور دوام  کو آمروں نے قتل کر دیا ،  وہاں تعلیم کے قومی سال  ۲۰۱۱ء میں قومی ترقی کی سمت متعین کرنے  والے شُعبے یعنی اعلیٰ تعلیم کو جمہوریت کی  قربان گاہ میں صوبائیت کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔بہت خُوب !
 ایچ ای سی کا ایک اعلیٰ ترین کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے درمیان رابطے  کا کام دیا ہے۔ملک میں کتنی  ہی کانفرنسیں منعقد ہوئیں جو  اس کمیش کے زیرِ بارِ احسان ہیں۔ ان کانفرنسوں میں ملک کے دور دراز علاقوں سے آنے والے مہمان اور ان کے درمیان سماجی اور تعلیمی میل جول کی جو فضا بر پا ہوئی،اب اسے قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ سائنسی تحقیق صوبائی حدود تو ایک طرف،  بین الاقوامی اور بین البراعظمی حدور کے آر پار دیکھتی ہے۔کمیشن کی صوابدید کو صوبوں میں بانٹ کر یہ توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ ہم تعلیم و تحقیق کے میدان میں کسی قومی سطح کی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہناسکیں گے۔  کیا  ہماری قوم کے نصیب میں شیرازہ بندی نہیں؟ میری نظر میں تو کمیشن کی بساط لپیٹ دینا  من حیث القوم اگلے بیس تیس  سال کی پیش بندی کے حق سےدستبردار ہونے کے مترادف ہے۔
خدارا ، زلزلے اور سیلاب کی قدرتی آفتوں کے بعد ڈرون اور خود کش حملوں کی عادی قوم کو اس بحران سے نکالیں ۔  اعلی تعلیم کے پنگھوڑے میں پہلی انگڑائی لینے کے بعد ہمیں ارتقا اور استدراج کے صبرآزما دور سے گزرنا ہے ۔ خدا کے لیے ہماری قوم کو تہذیب کی سیڑھی پر اگلا قدم بڑھانے تو دیں ۔