کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
رفیع اللہ
جب ہمیں مرد ِبیمار کا مطلب بھی پتہ نہیں تھا لوگ ترکی کو یورپ کا مردِبیمار کہہ رہے ہوتے تھے ۔جو تھوڑی بہت سمجھ آئی اُس کے نتیجے میں نہ مصطفیٰ کمال پسندیدہ شخصیت بنے اور نہ جدید ترکی پسندید ہ ملک۔گو مجھے آج تک وجہ معلوم نہیں مگر تُرکی کے متعلق دو باتیں سخت ناگوار گزرتیں پہلی یہ کہ ترکی ایک سیکولر ملک ہے اور دوسر ی یہ کہ ترکی یورپی یونین کی رُکنیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اور پھر مئی ۲۰۱۰ میں ایک نئے ترکی سے تعارف ہوا۔جب ایک پُر امن امدای کشتی پر اسرائیلی فوج کے حملے میں نو ترک کارکن جاں بحق ہوئے۔جس پر تُرکی کا ردِعمل ایک حقیقی طور پر آزاد اور خود مختار ملک جیسا تھا ۔اور آج مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ترکی کے وزیرِاعظم رجب طیب اردگا ن کی اذانِ سحرگونج رہی ہے۔وہی سحر جس کی نوید اسی نوے سال پہلے شاعرِمشر ق نے دی تھی،
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
خدا کرے یہ صدا جگر سوختہ فلسطینی ماوں کے لیے نوید سحر بھی ثابت ہو اور طیب اردگان جس جماعت کے درمیان صدائے تکبیر بلند کرنے گئے ہیں اُس کی آستینوں سے بت بھی گریں۔
اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل!
''نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی''
''نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی''
No comments:
Post a Comment