Difficulty in reading Urdu text?

If it is difficult to read Urdu text or you preferably wish to read in "Nastaleeq" please click here to download and install Urdu font. If you want to type in Urdu as well please follow the instructions given on this website.

Sunday, August 21, 2011

امید و مایوسی کے درمیان

امید و مایوسی کے درمیان
(اگست۲۰۱۱ کے موقع پر)
رفیع اللہ
پاکستان چونسٹھ بر س کا ہوگیا۔پاکستان کا ماضی بہت زیادہ روشن نہیں ہے اور حال کا حال بھی   بُرا ہے۔اگر مختصر ترین الفاظ میں بیان کیا جائے  تو کیفیت کچھ ایسی ہے۔   آج پاکستان کی گٹھری میں اخلاقی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ایک معاشرہ ہے۔اخلاقی گراوٹ کا یہ حال ہے کہ اشارہ توڑنے سے لے کر قتل تک  اور بچوں کے دودھ میں ملاوٹ سے لے کرانسانی اعضا کی چوری تک ہر قبیح جُرم ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے۔عدم  بر داشت ہماری نفسیات کا جزوِ لاینفک بن چکا ہے۔ معیشت آخری سسکیاں لے رہی ہے اور بدعنوانی بام عروج پر ہے۔ملک قرضوں پر چل رہا ہے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر انحصار اس قدر کہ اشیائے ضروریہ کی پرچون قیمتوں تک وہ طے کر رہے ہیں۔ زمامِ ریاست دوراندیشی سے عاری   بے کردار سیاستدانوں اور عسکریوں کے  ہاتھ میں ہے۔مخصوص جغرافیائی محلِ وقوع ، ماضی کے کرتوت اور عالمی طاقتوں کی خطے میں دلچسپی گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں۔
 آبادی مختلف لسانی اورنسلی خطوط کے ساتھ بٹی ہوئی ہے۔یہ تقسیم کہیں کہیں اتنی شدت اختیار کر گئی ہے کہ لسانی یا نسلی شناخت ملکی شناخت پر فوقیت حاصل کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔بلوچستا ن میں معاشی ناانصافیوں کے ردِعمل نے نسلی تعصب کو اس قدر شدید  کردیا ہے کہ ریاست کو تقریباً تقریباً اندرونی بغاوت کا سامنا ہے۔اور فوج اپنے ہی شہریوں کے خلاف مصروفِ جنگ ہے۔درد کا درماں کرنے کی بجائے نفرتوں کے ناسور پر نمک پاشی کی جارہی ہے۔ جبکہ کراچی میں مختلف لسانی گروہ آپس میں برس پیکار ہیں ۔امن و امان کے ذمہ دار ریاستی ادارے عضو معطل بن کر رہ گئے ہیں۔
پھر نظریاتی اعتبار سے معاشرہ بُری طرح تقسیم کا شکار ہے۔ایک مخصوص طبقہ نہ صرف مذہب کا انکاری  ہے بلکہ مذہب کو ہر بُرائی اور خرابی کی ماں  سمجھتا ہے۔اس قبیل کے لوگوں کا خیال ہے کہ مذہب ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ اور استحصال کا خطرناک  ترین ہتھیار ہے۔لہٰذا ایک جدید ترقی پسند ریاست کے قیام کے لیے ریاستی اُمور سے تو قطعی طورپر اور معاشرے سے کسی حد تک مذہب کو خارج کرنا ہوگا۔اس طبقے کے ہاں مذہبی لوگوں کے لیے برداشت تقریباً صفر ہے ۔مگر ایسے لوگ تعداد میں اقلیت اورعوامی مقبولیت سے محروم  ہیں۔معاشرے کی معاشی اور سماجی ساخت کے اعتبار سےاِن  میں سے بیشتر طبقہِ بالا سےتعلق رکھتے ہیں۔یہاں مذہب اور دقیانوسیت  کا ایک ہی مطلب لیا جاتا ہے۔
دوسری طرف اُن لوگوں کا اکثریتی  گروہ ہے جو مذہب سے کسی نہ کسی سطح کی وابستگی ضرور رکھتا ہے۔مذہب سے وابستگی میں شدت کے اعتبار سے یہ لوگ انتہائی متنوع ہیں۔ اس گروہ کی غیر معمولی اکثریت کو  کچھ مثتثنیات اور تحفظات کے ساتھ معتدل کہا جا سکتا ہے۔ سماجی ومعاشی اعتبار سے  زیادہ تر متوسط اور نچلے طبقات کے لوگ ہیں۔اس گروہ کا ایک معقول حصہ مذہبی نظریات میں خاصا متشدد ہے۔ان کےنزدیک ہمارے تمام مسائل کی جڑمذہب کا بطور مکمل نظام ِریاست رائج نہ ہوناہے۔ان میں سے کچھ لوگ اس مقصد کے حصول کے لیے عملی جدوجہد کے قائل ہیں۔مذہب کے بطور نظام ِریاست نفاذ  کے لیے ایک طبقہ سیاسی سطح پر کوشاں ہے جبکہ ایک دوسرا طبقہ مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ان متشدد طبقات کے ہاں  آزاد خیالی تو کجا اعتدال  کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔یہاں دلیل کا گَلہ گاہے شریعت کی تلوار سے کاٹا جاتا ہے۔
افغانستان پر روسی حملے سے لیکر امریکی حملے تک ہماری یکسر مختلف حکمت ِعملیوں اورخیبر پختونخواہ میں مذہب سے قدرے شدید وابستگی کے سبب ریاست کو ایک دوسری بغاوت کا سامنا ہے ۔ یہاں بھی فوج اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف صف آرا ہے۔
اس تناظر میں معاشرے کو تین بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔یعنی انتہائی آزاد خیال،معتدل اور انتہائی مذہبی۔اول الذکر اور آخر الذکر دونوں  اقلیت میں ہیں جبکہ معتدل طبقہ دراصل عوام ہیں۔انتہائی مذہبی اور انتہائی آزاد خیال طبقات کے درمیان نظریاتی رسہ کشی میں عوام رسہ بنے ہوئے ہیں۔
مذہبی اکثریت کی داخلی صورت حال بھی انتہائی پتلی ہے۔مذہبی منافرت  شاید اس سے پہلے اس معاشرے میں کبھی اس قدر شدید نہیں رہی ہوگی ۔فرقہ واریت  کا سرطان پورے معاشرتی جسم میں بُری طرح پھیل چکا ہے۔منبر و محراب ،جہاں سے اصلاح کے چشمے پوٹھنے کی توقع تھی ،فساد و شر کا پرچارکرنے میں مصروف ہیں۔مذہبی اکثریت کا اقلیتوں سے سلوک بھی انتہائی متعصبانہ اور استحصال پر مبنی ہے۔ جو کوئی چند ایک مذہبی لوگ ان تمام لعنتوں سے بچ رہے ہیں وہ اپنے دامن کو چھینٹوں سے بچانے جیسی خود غرضانہ سوچ کے تحت پسِ منظر میں چلے گئے ہیں۔اورپھر جس کسی نے آواز بلند کرنے  کی کوشش کی بھی اُسے ابدی نیند سُلا دیا گیا۔
معاشی اور سماجی اعتبار سےمعاشرتی قطبیت اپنی انتہاوں کو چھور ہی ہے۔متوسط طبقہ تیزی سے انحطاط کا شکار ہے۔متوسط طبقے کی اکثریت  معاشی پستی میں گررہی ہے  جبکہ طبقہ ِبالا  بالاتر ہورہا ہے۔غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کو زندگیاں بہتر بنانے کےمواقع تو دور کی بات  بے روزگاری کا اژدھامتوسط طبقے کوبھی تیزی سے نگل رہا ہے۔اور یوں معاشرتی بُرائیوں کی ماں بے روزگاری خوب پنپ رہی ہے۔تعلیمی نظام بھی طبقاتی تقسیم کی لعنت  میں لتھڑا ہوا ہے۔امرا کے لیے نجی انگریزی تعلیمی ادارے ،متوسط طبقے کے لیےسرکاری اُردو سکول اور غربا کےلیے مذہبی مدرسے ہیں۔یوں  طاقت کے دیگرمواخذ کے ساتھ ساتھ تعلیم پر بھی  مقتدر طبقے کی اجارہ داری ہے۔تعلیم اور انگریزی خوانی  کے ہتھیار  کومتوسط اور نچلے طبقات کے استحصال کے لیے نہایت چابکدستی سے استعمال کیا جارہاہے ۔
تقریباًساٹھ فیصد آبادی آج بھی کسی نہ کسی طرح زراعت سے وابستہ ہے اور دیہاتوں یا قصبوں میں رہتی ہے۔زرعی اور دیہی معاشرے میں برادری اور قبائلی نظام خاصے مضبوط ہیں جس کی وجہ سے جمہوریت کا مغربی پودا کچھ زیادہ بارآور ثابت نہیں ہوسکا۔پھراختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی اور مقامی حکومتوں کے قیام کواقتدار پر قابض اقلیت نےممکن نہیں بننے دیا۔جس سے نہ تو وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہوسکی اور نہ ہی عوام کی جمہوری تربیت۔
                ہمارا مجموعی مزاج ایسا بن کر رہ گیاہےکہ کوئی ناکامی، داخلی یا خارجی، جب ہمارے گلے کا ہار بنتی ہے تو بجائے اسباب کھوج کر آئندہ کے لیے سبق سیکھنے کے ہم آنکھیں ملتے ہوئے اسے یہود ،ہنود اور نصاریٰ کی سازش قرار دے دیتے ہیں اور پھر کروٹ بدل کر سوجاتے ہیں۔بالکل ایسے ہی جیسے کسی بسیار نوش کے ہاتھوں اگر جام ڈھلک جائے تو اُسے یہ حضرت ناصح ہی کی شرارت لگتی ہے۔
                یہ ہیں وہ حالات جن میں پاکستان کا چونسٹھواں یوم آزادی منایا گیا۔ اور تو اور ہم تو اس بات پر بھی تقسیم ہیں کہ   اِن حالات میں کوئی امید باقی ہے یا بس مایوسی ہی مایوسی ہے۔اگر تقسیم نہیں ہیں تو مخمصے میں ضرور ہیں کہ پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا۔کچھ  تو انتہائی غیر یقینی کا شکار ہیں اور مکمل طور پر مایوس ہیں۔جبکہ کچھ ضرورت سے زیادہ پُر اُمید ہیں اُن کا اعتقاد ہے چونکہ پاکستان ایک خدائی معجزہ ہے اس لیے اسے کبھی کچھ نہیں ہوگا۔یہاں ایک تیسرہ گروہ بھی ہے جسے مسائل کی سنجیدگی،شدت اور گہرائی کا ادراک بھی ہے اور وہ مایوس بھی نہیں ۔بلکہ کہیں خاموشی سے اور کہیں کھلے بندوں  جہاں ہیں جیسے ہیں جو کررہے ہیں کی بنیادپر عملی جدوجہد میں مصروف ہیں ۔اگرچہ یہ لوگ تعداد میں کم ہیں مگر سرنگ کے آخری سرے پر نظرآنے والی کِرن یہی گم نام سپاہی ہیں۔بس ضرورت اس اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کی ہے۔اور بہترین شروعات اپنی ذات ہے۔

Saturday, August 6, 2011

بہ ہر سُو رقصِ بسمل بود


بہ ہر سُو  رقصِ بسمل بود
رفیع اللہ
میں سکول کے زمانے  میں اپنے ماموں کے ساتھ جنگلی کبوتروں کے شکار پر جایا کرتا تھا۔ماموں  گھات لگا کر کبوتروں کے جھُنڈ پر بارہ بور بندوق سے چار نمبر کا کارتوس چَلاتے تھے۔گولی کی آواز کے ساتھ ہی ہم بھاگ  کر جاتے اور دیکھتے کہ کتنے کبوتر گرے ہیں اور جو ہم میں سے پہلے پہنچتا  اور پہلے اندازہ لگا چکتا وہ چیخ کر کہتا ………………………………پانچ گرے ہیں……………ارے وہ دیکھو ایک اور بھی ہے  ۔بڑا ہی پُر کیف منظر ہوا کرتا تھا کسی کبوتر کو چَھرہ آنکھ میں لگا ہوتا تھا تو کسی کے پیٹ میں……………کسی کا پر ٹوٹا ہوتا تھا تو کسی  کی ٹانگ  …………… حسب توفیق ہر کبوتر پھڑ پھٹرا بھی رہا ہوتا تھا۔پورا سماں  "بہ ہر سو رقص بسمل بود" کی تصویر نظر آتا ۔
 خیرسکول کا زمانہ گزر گیا لیکن میں ابھی تک یہی سمجھتا رہا کہ شکا ر صرف جنگلوں میں  جا کرجنگلی جانوروں اور پرندوں کا کھیلا جاتا ہے۔مگر اب معلوم پڑا ہے کہ نہیں شکا ر تو شہروں میں بھی کھیلا جاتا ہے۔اور یہ شکار جنگلوں میں کھیلے جانے والے شکار سے کہیں زیادہ دلچسپ ہوتا ہے۔جنگلوں میں تو ہم کبوتروں،فاختاوں،خرگوشوں اور ہرنوں کا شکار کرتے ہیں۔لیکن شہروں میں انسان شکار کیے جاتے ہیں۔عمومی شکار تو گولی سے ہی ہوتا  لیکن باذوق شکاری گرینیڈ اور بم کا استعمال بھی کرتے ہیں۔اگر کہیں بزدل انسانوں کو شکار کرنا ہو جو کسی گھونسلے میں چھپے بیٹھے ہوں تو پھر خود کُش شکاریوں کوزحمت دینا پڑتی ہے۔اکثر اوقات تو ان مناظر کو فلمایا بھی جاتا ہے۔لہٰذا اگر آپ براہ راست کھیل میں شریک نہ بھی ہوں تو ان مناظر سے یکساں طور پر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
شہر کا شکار جنگل کے شکار سے کہیں مختلف ہے۔یہاں مردہ، نیم مردہ اورپھڑپھڑاتے شکار  کی براہ ِراست فلم دکھانے اورشکار شدہ انسانوں کو گننے کے لیے باقاعدہ ادارے قائم ہیں ۔ان اداروں کے لوگ جلد سے جلد شکا رکے میدان میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔کھیل کے میدان  کی صورتِ  حال کیا ہے،کتنے لوگ شکار ہوئے ہیں وغیر ہ کی تفصیل بتانے میں وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔پھر بڑی جانفشانی سےشکار ہونے  والوں کے کوائف سے لے کر موقع پر موجود تماش بینوں کے احساسات تک  کو نشر کیا جاتا ہے تاکہ دور بیٹھے تماش بین بھی پوری طرح لذّت کشید کر سکیں۔
آغاز کے دنوں میں اس کھیل میں عوامی دلچسپی دیدنی ہوتی تھی۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ عوامی دلچسپی میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔مگر جس شدت سے یہ کھیل جاری ہے اُس سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید کھیل کے منتظمیں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عوام اُن کے کھیل میں کس قدر دلچسپی لے رہے ہیں۔خیبر پختونخواہ میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور بلوچستان میں شکار شدہ جسموں پر کندہ کاری سے اس کھیل کو دلچسپ بنانے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔کراچی میں شکار کھیلنے کا انداز خیبر پختونخواہ اور بلوچستا ن سے مختلف ہے۔یہاں شکار شدہ جسموں کو بوریوں میں محفوظ کر دیا جاتا ہے۔کشمیر اور پنجاب میں یہ کھیل اُس طرح فروغ نہیں پا سکا جس کے لیے سرکاری اور عوامی ہر دو سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے۔
شکارکے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں،شکاری مختلف ہو سکتے ہیں مگر کھیل ایک ہی ہے۔ہماری سرزمین اِس کھیل کے لیے اِس قدر موزوں ہے کہ امریکی بھی ہمارے ملک میں آکر  شکار کھیلنا پسند کرتے ہیں۔امریکیوں کے علاوہ زیادہ تر شکاری مقامی ہیں۔سرکاری تربیت یافتہ شکاریوں کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری شکاری بھی اُسی جوش وجذبے سے مصروفِ کار ہیں۔مجھے معلوم نہیں ہمارا قومی کھیل کون سا ہے مگر میری بھرپور استدعا ہے اب سے  "شکار" کو ہمارا قومی کھیل قرار دیا جاناچاہیے۔