بہ ہر سُو رقصِ بسمل بود
رفیع اللہ
میں سکول کے زمانے میں اپنے ماموں کے ساتھ جنگلی کبوتروں کے شکار پر جایا کرتا تھا۔ماموں گھات لگا کر کبوتروں کے جھُنڈ پر بارہ بور بندوق سے چار نمبر کا کارتوس چَلاتے تھے۔گولی کی آواز کے ساتھ ہی ہم بھاگ کر جاتے اور دیکھتے کہ کتنے کبوتر گرے ہیں اور جو ہم میں سے پہلے پہنچتا اور پہلے اندازہ لگا چکتا وہ چیخ کر کہتا ………………………………پانچ گرے ہیں……………ارے وہ دیکھو ایک اور بھی ہے ۔بڑا ہی پُر کیف منظر ہوا کرتا تھا کسی کبوتر کو چَھرہ آنکھ میں لگا ہوتا تھا تو کسی کے پیٹ میں……………کسی کا پر ٹوٹا ہوتا تھا تو کسی کی ٹانگ …………… حسب توفیق ہر کبوتر پھڑ پھٹرا بھی رہا ہوتا تھا۔پورا سماں "بہ ہر سو رقص بسمل بود" کی تصویر نظر آتا ۔
خیرسکول کا زمانہ گزر گیا لیکن میں ابھی تک یہی سمجھتا رہا کہ شکا ر صرف جنگلوں میں جا کرجنگلی جانوروں اور پرندوں کا کھیلا جاتا ہے۔مگر اب معلوم پڑا ہے کہ نہیں شکا ر تو شہروں میں بھی کھیلا جاتا ہے۔اور یہ شکار جنگلوں میں کھیلے جانے والے شکار سے کہیں زیادہ دلچسپ ہوتا ہے۔جنگلوں میں تو ہم کبوتروں،فاختاوں،خرگوشوں اور ہرنوں کا شکار کرتے ہیں۔لیکن شہروں میں انسان شکار کیے جاتے ہیں۔عمومی شکار تو گولی سے ہی ہوتا لیکن باذوق شکاری گرینیڈ اور بم کا استعمال بھی کرتے ہیں۔اگر کہیں بزدل انسانوں کو شکار کرنا ہو جو کسی گھونسلے میں چھپے بیٹھے ہوں تو پھر خود کُش شکاریوں کوزحمت دینا پڑتی ہے۔اکثر اوقات تو ان مناظر کو فلمایا بھی جاتا ہے۔لہٰذا اگر آپ براہ راست کھیل میں شریک نہ بھی ہوں تو ان مناظر سے یکساں طور پر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
شہر کا شکار جنگل کے شکار سے کہیں مختلف ہے۔یہاں مردہ، نیم مردہ اورپھڑپھڑاتے شکار کی براہ ِراست فلم دکھانے اورشکار شدہ انسانوں کو گننے کے لیے باقاعدہ ادارے قائم ہیں ۔ان اداروں کے لوگ جلد سے جلد شکا رکے میدان میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔کھیل کے میدان کی صورتِ حال کیا ہے،کتنے لوگ شکار ہوئے ہیں وغیر ہ کی تفصیل بتانے میں وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔پھر بڑی جانفشانی سےشکار ہونے والوں کے کوائف سے لے کر موقع پر موجود تماش بینوں کے احساسات تک کو نشر کیا جاتا ہے تاکہ دور بیٹھے تماش بین بھی پوری طرح لذّت کشید کر سکیں۔
آغاز کے دنوں میں اس کھیل میں عوامی دلچسپی دیدنی ہوتی تھی۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ عوامی دلچسپی میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔مگر جس شدت سے یہ کھیل جاری ہے اُس سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید کھیل کے منتظمیں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عوام اُن کے کھیل میں کس قدر دلچسپی لے رہے ہیں۔خیبر پختونخواہ میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور بلوچستان میں شکار شدہ جسموں پر کندہ کاری سے اس کھیل کو دلچسپ بنانے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔کراچی میں شکار کھیلنے کا انداز خیبر پختونخواہ اور بلوچستا ن سے مختلف ہے۔یہاں شکار شدہ جسموں کو بوریوں میں محفوظ کر دیا جاتا ہے۔کشمیر اور پنجاب میں یہ کھیل اُس طرح فروغ نہیں پا سکا جس کے لیے سرکاری اور عوامی ہر دو سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے۔
شکارکے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں،شکاری مختلف ہو سکتے ہیں مگر کھیل ایک ہی ہے۔ہماری سرزمین اِس کھیل کے لیے اِس قدر موزوں ہے کہ امریکی بھی ہمارے ملک میں آکر شکار کھیلنا پسند کرتے ہیں۔امریکیوں کے علاوہ زیادہ تر شکاری مقامی ہیں۔سرکاری تربیت یافتہ شکاریوں کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری شکاری بھی اُسی جوش وجذبے سے مصروفِ کار ہیں۔مجھے معلوم نہیں ہمارا قومی کھیل کون سا ہے مگر میری بھرپور استدعا ہے اب سے "شکار" کو ہمارا قومی کھیل قرار دیا جاناچاہیے۔
Very true Rafi!
ReplyDelete