پھر بھی نہیں لوٹتی نظر ادھر کو کیا کیجے؟
رفیع اللہ
رفیع اللہ
۸ مارچ ۲۰۱۱ کو عالمی کپ کے سلسلے میں ہمارا نیوزی لینڈ کی ٹیم کے ساتھ کرکٹ میچ تھا۔میچ ارض پاک سے کوسوں دور سری لنکا کے میدان میں ہو رہا تھا۔گو میچ مقامی وقت کے مطابق دن ۲ شروع بجے ہونا تھا مگر ہم صبح سے ہی انتظار میں تھے۔بالآخر میچ شروع ہوا۔ہم جہاں کہیں بھی تھےٹیلی ویژن کے سامنے براجمان ہو گئے۔ہم میں سے کچھ دفاتر سے جلد لوٹ آئے کہ گھر میں سکون سے اہل ِخانہ کے ساتھ بیٹھ کرمیچ سے لطف اندوز ہونگے ۔جہاں کہیں ممکن ہوسکا ہم نےقدِآدم سکرینوں کا بندوبست بھی کیا ۔حتیٰ کہ ہم نے ہر وہ اہتما م کیا جو اس میچ کو لطف اندوز بنانے کے لیے ضروری تھا اور جس کی پاکستانی ہونے کے ناطے ہم سے توقع کی جاسکتی ہے۔
میچ کی ابتدا تو خاصی حوصلہ افزا تھی مگر پھر صورت حال بدلنے لگی۔ہماری وکٹ پہ وکٹ گرنے لگی ۔ بہت جلد اور آسانی سے ہم یہ معرکہ ہار گئے۔ہمارے لیے یہ تلخ گھونٹ بھرنا بہت مشکل تھا۔بہت دکھ ہوا اور پاکستانی کھلاڑیوں پہ غصہ بھی بہت آیا ۔ایسے محسوس ہوا جیسے دانت کے نیچے ریت کا ذرہ آجائے تو محسوس ہوتا ہے۔جوکھلاڑی اچھا نہیں کھیلے اُن کو خوب گالیا ں دیں۔دل چاہا جا کر اُن کے گھر پر پتھروں کی بارش برسا دیں۔سماجی رابطے کی ویب سائٹوں سے کھلاڑیوں کے گھروں کے پتے تو معلوم ہو ہی گئے تھے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر آزادی ِ اظہار خیال کا پورا پورا فائدہ اُٹھاتے ہوئے غم غلط کرنے کی کوشش کی مگر کچھ آفاقہ نہیں ہوا۔رات بے کیف گزری اور دن بھی بوجھل بوجھل سا گزر رہا ہے۔
میچ شروع ہونے سے کوئی چار گھنٹے پہلے فیصل آباد میں تقریباً ۲۵ پاکستانی زندگی کی وکٹ ہار گئے۔اور میچ ہارنے کے اگلے ہی دن صبح صبح پشاور کے قریب مزید۴۰ پاکستانی زندگی کا میچ ہار گئے۔ہا ں یہ سب المناک ہے مگر کرکٹ میچ ہارنے کا صدمہ اس قدر ہے کہ اور کچھ سوجھتا ہی نہیں۔۳۶ گھنٹوں میں ۶۵ انسانی جانوں کا زیاں اہم ہے مگر پھر بھی نہیں لوٹتی نظر ادھر کو کیا کیجے؟
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
ReplyDeleteہاں اہل ستم مشق ستم کرتے رہیں گے
mater of priorities!!!!!!
ReplyDelete