قومی سالمیت
رفیع اللہ
چونسٹھ برس ہونے کو ہیں ہم ایک خطہ ارض میں اکٹھے رہ رہے ہیں جسے ہم نے مذہب کے نام پر حاصل کیا تھا۔اِس بات پہ اختلاف ہوسکتا ہے کہ بانیانِ پاکستان ،پاکستان کو بعد ازاں کس قسم کی ریاست بنانا چاہتے تھے مگر اس بات پر اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہےکہ ہندوستان سے علیحدگی کی بنیاد مذہب ہی کو بنایا گیا تھا۔مگر جس خطے کو ۱۹۴۷میں پاکستان کا نام دیا گیا اُس کے باسی نہ تو ایک زبان بولتے تھے اور نہ ہی ایک نسل سے تعلق رکھتے تھے۔تقریباً نصف آبادی پر مشتمل ایک حصہ تو نہ صرف نسلی و لسانی بلکہ جغرافیائی اعتبار سے بھی باقی نصف آبادی والےحصے سے دور تھا۔گویا ابتداً یہ باور کرنا بالکل فطری ہوگا کہ شاید نسلی ،لسانی اور جغرافیائی شناختوں سے بالاتر ایک مذہبی شناخت ہمیں متحد رکھے گی۔
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مذہب کو علیحدگی کی بنیاد بناتے وقت دو بنیادی خدشات کو دلیل بنایا گیا۔ ایک یہ کہ اگر ہم ہندوستان کے ساتھ رہیں گے تو ہمیں اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل نہیں ہوگی۔دوسرا اہم نقظہ یہ تھا کہ متحدہ ہندوستان میں چونکہ ہم اقلیت میں ہوں گے تو اکثریت معاشی،معاشرتی،تعلیمی اور سیاسی ہر میدان میں ہمارا استحصال کرے گی۔
گویا پہلے دن سےمذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی اور لوگوں کی معاشی و معاشرتی فلاح ریاستِ پاکستان کی دو بنیادی ذمہ داریاں قرار پائیں۔مسلمان اکثریتی ملک میں اکثریت کو مکمل اور دیگرمذہبی اقلیتوں کو محدود مذہبی آزادی دے دی گئی۔یہ بہت آسانی سے کر دیا گیا کیونکہ ایسا کرنے میں ریاست کو عملاً کچھ نہیں کرنا پڑا ۔وجوہات جو بھی ہوں ریاستی ڈھانچہ پاکستانی عوام کو معاشی و معاشرتی فلاح کے یکساں مواقع فراہم کرنے میں کلی طور پر ناکام رہا۔ریاست نے اپنی انتہائی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری اور آزادی کے نعروں میں سے ایک نعرے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا ۔
جب معاشی و معاشرتی استحصال کو نسلی و لسانی عصبیت کا تڑکا لگایا گیا تو پھر چسم فلک نے ایک ہی خدا وررسول کے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیا سا دیکھا۔چاہیے تو یہ تھا کو سلگتی چنگاریوں کو بجھایا جاتا مگر شاید اہلِ خرمن کے پاس پھونک دینے کو بہت کچھ تھا۔ایک طرف تحریکِ پاکستان میں سب سے فعال کردار ادا کرنے والے اپنے ہی ملک کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تو دوسری طرف سرحدوں کے رکھوالے اپنے ہی ہم وطنوں پہ پل پڑے۔اور تو اور ایک مذہبی جماعت کی سرکردگی میں مذہبی رٖضاکاروں نے بھی اپنے ہی ہم وطنوں اور ہم مذہبوں کے خلاف عملی جہاد کا اعلان کر دیا ۔اور اس طرح مشرقی پاکستان کے مسلمانوں نے اپنے ہی ہم مذہبوں اور ہم وطنوں سے آزادی حاصل کی۔دونوں طرف سےمارے جانے والوں کو آج بھی شہید مانا جاتا ہے۔اگر ایک طرف کےشہدا نے مادر وطن اور اُس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے جان دی تو دوسری طرف کے شہدا نےاپنی مادر وطن کو آزاد کراتے ہوئے۔
یہاں دو سوال بہت اہم ہیں۔ایک تو یہ کہ کیا قوموں یا ملکوں کو سماجی ومعاشرتی انصاف کے بغیر محض مذہب یا کسی اور بالاتر نظریے کے نام پر متحد رکھا جا سکتا ہے؟ دوسرا یہ کہ اگر ہم مذہب کو ہی بنیادی شناخت اور اتحاد کی علامت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر مذہب ہی کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ملک کے مختلف گوشوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کےلیے یکساں معاشی ومعاشرتی حقوق کو یقینی کیوں نہیں بناتے؟ مثلاًبلوچستان میں ہونے والی معاشی و سیاسی ناانصافیوں اور خیبر پختونخواہ میں ہونے والے ڈروں حملوں پر پنجاب کے باسی سیخ پا کیوں نہیں ہوتے؟
غور طلب بات یہ ہے کہ اگر ملک کا کوئی حصہ معاشی استحصال اور لسانی تعصبات کے ردعمل میں الگ ہوجائے تو اس سے خود مذہب کو کیا فرق پڑتا ہے؟کم از کم میرے خیال میں تو مذہب کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔مثال کے طور پر بنگلہ دیشی آج بھی ویسے ہی مسلمان ہیں جیسے ۱۹۷۱سے پہلے تھے ۔
یہ تو ایک زمینی حقیقت ہے کہ ہم لسانی اور نسلی اعتبار سے ایک متنوع معاشرہ ہیں۔تو ایسے حالات میں مذہب ہمیں متحد رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے بشرطیکہ مذہب کے نام پر معاشرے کو تقسیم کرنے کی اجازات نہ ہو تو۔مگر ہمیں معاشی و سماجی مساوات اور علاقائی رنگ وثقافت کےمناسب احترام کی کلیدی حیثیت کو نہ صرف ماننا ہوگا بلکہ اس کےلیے عملی جدوجہد کرنا ہوگی۔ وگرنہ ہم سقوط ڈھاکہ کی صورت میں دیکھ چکے ہیں کہ مفلسی،ناانصافی اور نسلی ولسانی تعصبات مذہب کی تمیز بھی ختم کر دیتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ جو بغاوت کامیاب ہو جائے وہ تاریخ میں تحریکِ آزادی کے طور پر یاد کی جاتی ہے۔ملکی سالمیت کے لیے ،محض جغرافیائی سرحدوں کی مستعد حفاظت نہیں، بلکہ سرحدوں کے اندر دلوں کا ایک ساتھ دھڑکنا بھی ضروری ہے۔
No comments:
Post a Comment