ایک فرد سے ناانصافی پورے معاشرے سے ناانصافی
رفیع اللہ
گذشتہ عشرے سے ہمارے معاشرے میں افراد کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے ردعمل میں ایک رویے نے جنم لیا ہے۔یعنی جب کسی فرد ،خاندان، یا کسی گروہ کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوتی ہے تو متاثرہ فرد،خاندان یا گروہ ہمیں سراپا احتجاج نظر آتا ہے۔اور باقی معاشرہ ایسے غیر متعلق رہتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔یہ ناانصافیاں قتل سے لے کر کسی خاص شہر یا علاقے میں بجلی کی غیر اعلانیہ ، غیر معمولی بندش تک پھیلی ہوئی ہیں۔تقریباً پچھلے پانچ سالوں میں اس طرح کے مظاہر وں کی تعداد اچھی خاصی بڑھ گئی ہے۔مظا ہرین عام طور پر کسی سڑک کو بند کر کے، ٹائر جلا کر یا اپنے کسی پیارے کا لاشہ سامنے رکھ کر اپنا غم غلط (Catharsis)کر تے ہیں اور سرشام خشک گلوں، یژمردہ چہروں اور خاک آلود پیرہنوں کے ساتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔اگلی صبح معدے میں اُٹھتی ہوئی بھوک کی ٹیسیں ستمِ گذشتہ کی تلخی بھلا دیتی ہیں۔بقا کی جبلت آڑے آتی ہے اور زندگی پھر اُسی ڈگر پر کسی تازہ ستم کی تلاش میں نکل پڑتی ہے ۔اگلے دن یہی کہانی ارضِ پاک کے کسی اور گوشے میں دہرائی جاتی ہے۔دستِ ستم ہے کہ تھکتا نہیں۔
یا اللعجب ہم سوچنا نہیں چاہتے یا جبرِمسلسل نے غوروفکر کی صلاحیت ہی مصلوب کر دی ہے۔ہم انفرادی واقعات پر غیر معمولی رد ِعمل کا اظہار تو کرتے ہیں مگر انصاف پر مبنی فلاحی معاشرے کے قیا م کے لیے کسی اجتماعی کوشش کو شروع کرنے سے قاصر ہیں۔صر ف خود سے ہونے والی ناانصافی کو ناانصافی سمجھتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ جوبھی ہوتا ہے اُسے اپنا مسئلہ نہیں سمجھتے۔ہم صرف اس قدر انصاف اور حقوق کے متمنّی ہیں کہ بس جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھا دی جائے۔ایسی صورت میں کیا ہم کسی بھی انصاف کے مستحق ہیں؟
فکرِ روز گا ر نے ہمارے ذہنوں کو اس قدر مفلوج کر دیا ہے کہ اپنی ذات سے باہر ہمیں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔جو طبقہ فکرِ روزگا ر سے بے پرواہ ہے وہ انصاف کو بھی خریدنے کی صلاحیت رکھتاہے اس لیے انصاف اُس کا مسئلہ نہیں ہے۔اور ویسے بھی ناانصافی اور کمزور کی شناسائی تو تہذیتِ انسانی کے آغاز سے ہی ہے۔بھیڑیا ہر روز ہمارے ریوڑ سے ایک بھیڑ کو ہلاک کر جاتا ہےمگر ہم آسودہ فکر ہیں کہ شاید ہماری باری کبھی نہیں آئے گی۔
اب ہمارے سامنے دو راستے ہیں ایک یہ ہےکہ ہم اپنی باری کبھی نہ آنے کی خود فریبی میں آسودہ خاطر رہیں۔دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم ایک فرد کے ساتھ ناانصافی کو پورے معاشرے کے ساتھ ناانصافی سمجھیں اور اُٹھ کھڑے ہوں ……….کہیں بس بھائی بس………….اور دست ِقاتل کو جھٹک دیں۔
ہم کوئی فیصلہ کریں یا نہ کریں تاریخ اپنا فیصلہ ضرور صادرکرے گی۔
Bohat khoob...
ReplyDeleteRafi bhai,
ReplyDeleteAap ka blog parh kar bohat khushi huee... khayal aur usloob-e-bayan donoan main jaan hae...
Waysay toe pehlay hee din agay kee fikr karna koee ma'qool baat nahin hae... laikin main aik idea aap to phir bhi doon ga... woh yeh keh aap apnay blog par aur likhnay waloan koe bhi da'wat dain... agar chay saat achay likhnay walay aap kay blog to apna thikana bana lain toe yeh solo flight say bohat behtar hae... teen wojoohat ki bina par... awwal yeh keh blog kay readers ziyada tar waqif karoan main say hotay haen.... cum az cum shuru main... toe jitnay ziyada likhnay walay hoan gay, utnay hee ziyada readers hoan gay... doosra yeh keh bil aakhir tehrir ka maqsad logoan main tehreek koe ubharna hae... aur iss kay liyay hum-khayaloan to ikatha karna lazim hae... toe aap ka blog agar muta'addid nisbatan hum-khayal writers aur readers to ikatha kar lay toe yeh bari khidmat hoe gee... aur teesri wajah, shayad sub say aham, yeh hae, keh hum main say koee bhi paysha-war sahafi nahi hae... is liyay hum loag waqfay waqfay kay baad likhtay haen... agar likhnay walay ziyaada hoan gay toe haftay main aik doe naee tehrirain aatee rahain gee... regular readers mayoos nahin hoan gay...
Yeh toe bus aik idea tha...
Pehli post bohat mubarak hoe...
I can't see your name but for sure you are Gilani. Right?
ReplyDeleteYour ideas resonates with what I already had in my mind. So please be the one, other than me, first to post something.