بس بھائی بس
رفیع اللہ
جولائی ۲۰۱۲ کے آخری عشرے میں پاکستانی ذرائع ابلاغ میں پانی سےگاڑی چلائے جانے کے کامیاب تجربے کی خبر شائع ہوئی۔اس خبر نے ایک طرف لوڈشیڈنگ اور گرمی کے مارے ہوئےعوام کو چونکا دیا تو دوسری طرف سنجیدہ سائنسی حلقوں کو حیران کر دیا۔ وفاقی وزرا نے موجد کی داد و تحسین کے ساتھ ساتھ سرپرستی کے وعدے کیے۔ٹی وی کے میزبانوں نے بھی موجد اور ایجاد دونوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس نادر ایجاد کے موجد
آغا وقار اور دیگر مقبول سائنسدان سیاسی مباحثوں کے لیے مشہور پروگراموں میں مدعو ہونے لگے۔
ابتدائی پروگراموں میں سے ہی کسی ایک میں ڈاکٹر عطا الرحمان نےکہا کہ پانی سے گاڑی چلانا بنیادی سائنسی اصولوں کی روشنی میں ممکن نہیں ہے اور یہ ایک قومی سطح کا دھوکہ ہے ۔مگر اُسی پروگرام میں پی سی ایس آئی آر کے چیئرمین ڈاکٹر شوکت پرویز اور ڈاکٹر قدیر بھی شریک تھے۔اور ان دونوں صاحبان نے ڈاکٹر عطاالرحمان کے برعکس آغا وقار اور اس کی ایجادکو درست قرار دیا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند پہلے ہی اسے درست قرار دے چکے تھے۔اگرچہ بعد میں قدرے مبہم انداز میں وہ اپنے سابقہ موقف اور آغا وقار کی حمایت سے دستبردار ہوتےنظر آئے ۔
ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے ڈاکٹر عطا الرحمان سے اتفاق کرتے ہوئے اس ایجاد کو بنیادی سائنسی اصولوں کے خلاف اور فریب قرار دیا۔حتیٰ کہ ایک ٹی وی پروگرام میں آغا وقار نے ڈاکٹر پرویز ہودبھائی اور ڈاکٹر شوکت حمید کو، میکس پلانک کے نظریات،ہاروڈ یونیورسٹی کے نوٹس اور کوائنٹم انقلاب کی مدد سے، کوائنٹم سٹیٹسٹیکل میکینکس پڑھانے کی بھی کوشش کی مگر یہ حضرات قائل ہوتے نظر نہیں آئے۔ٹی وی میزبانوں نے اس پر کچھ دن مزید جگالی کی اور پھر یہ موضوع موضوع نہ رہا۔مگر الجھنوں میں الجھی قوم کے ذہن میں ایک اور الجھن، ایک اور سازشی نظریہ چھوڑ گیا۔
اب حال ہی میں ۷ دسمبر کو یہ مسئلہ دوبارہ ایک ٹی وی شو کا موضوع بنا۔ اس پروگرام میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ڈاکٹر عطاالرحمان پروگرام میں دعوت کے باوجود تشریف نہیں لائے کیونکہ شاید اُن کا نقطہ نظر کافی کمزور ہے۔مگر ایک بار پھر پانی سے چلنے والی گاڑی کا شور سنائی دے رہا ہے جو صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے۔اس پروگرام کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے جہالت پوری قوم کا منہ چڑا رہی ہو۔
جب ایک ایجاد کو ڈاکٹر عطا الرحمان، ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور ڈاکٹر شوکت حمید جیسے لوگ دھوکہ اور فریب قرار دیں اور دوسری طرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور پی سی ایس آئی آر کے چیئرمین ڈاکٹر شوکت پرویز جیسے سائنسدان درست قرار دے دیں تو پھر آغا وقار کی اپنی شخصیت اس بحث میں مرکزی نہیں رہتی۔دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی ایسی متنازعہ ایجادات سامنے آتی رہتی ہیں، ان ایجادات اور ان کے موجدین کو مقبولیت بھی ملتی ہے۔وہ ٹی وی پر بھی آتے ہیں۔
آغا وقار کی ایجاد سے پانچ سال پہلے دُنیائے سائنس کے معتبر ترین جریدے نیچر میں فلپ بال کا مضمون "پانی کو جلانا اور دوسری کہانیاں" شائع ہوا۔اگر آپ اس مضمون پر نظر دوڑائیں تو آپ حیران رہ جائیں گے۔ مضمون کا پہلا جملہ ہی یہ ہے کہ "کیا آپ نے پانی سے چلنے والی گاڑی کے بارے میں سنا ہے؟ اگر نہیں ....تو فکر نہ کریں یہ کہانی دوبارہ زندہ ہوگی اور پھر دوبارہ۔" اسی مضمون میں آگے چل کر مصنف ذرائع ابلاغ کے جعلی سائنس کے متعلق جس غیر ذمہ دارانہ رویے کا رونا روتا ہے بالکل وہی رویہ ہمارے ذرائع ابلاغ کا ہے۔ پانی کو ایندھن (یا ایندھن کے ذریعے) کے طور پر استعمال کرنے کے بارے میں مصنف دو ٹوک الفاظ میں لکھتا ہے"[...] تھرموڈئنامکس کا قطعی فیصلہ ہے:پانی ایندھن نہیں ہے۔یہ کبھی ایندھن نہیں تھا، اور یہ کبھی ایندھن نہیں ہو گا۔پانی نہیں جلتا۔یہ پہلے ہی جلا ہوا ہے ۔۔یہ استعمال شدہ ایندھن ہے۔ یہ دھواں ہے۔"
ہمیں آغا وقار کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ہمارے چند انتہائی معتبر سمجھے جانے والے مشہور و مقبول قومی سائنسدانوں کو سائنس کے بنیادی تصورات سے کیسی واقفیت ہے یہ ہمیں کبھی پتہ نہ چلتا اگر آغا وقار یہ ایجاد نہ کرتا تو۔ایک خطر ناک پہلو یہ ہے کہ اس نام نہاد ایجاد اور اس سے متعلق دلائل نہ صرف قطعی طور پر غلط ہیں بلکہ گمراہ کن ہیں۔اوراس کا پہلا شکار عوام الناس اور دوسرا سائنس کے ابتدائی طالب علم ہیں۔پی سی ایس آئی آر کے چیئرمین جن کا مضمون بیالوجی ہے اور ان کی تازہ ترین سی وی چودہ صفحات پر مشتمل ہے۔ان کو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی غلطی تسلیم کرنی چاہیے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی اگر اپنے موقف پرنظر ثانی فرمائیں تو یہ ان کا قوم پر احسان ہوگا۔ جبکہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند پہلے ہی کسی حد تک ازالہ کر چکے ہیں۔
اُن اداروں کوبھی اپنا موقف واضح کرنا چاہیے جن کا نام آغا وقار وقتاََ فوقتاََ اپنی ایجاد کے تصدیق کنندگان کے طور پر لیتا رہا ہے جن میں پاکستان انجنیرنگ کونسل(بقول آغا وقار پاکستان انجنیرنگ کونسل اور اسکے سارے سائنسدان) اور پاکستان اٹامک انرجی کمیش (بقول آغا وقار پاکستان اٹامک انرجی اور اسکے سارے سائنسدان)سر فہرست ہیں۔
آخر میں ٹی وی میزبانوں سے: بس بھائی بس سیاسی اور سماجی اصلاح کا بیڑہ غرق کرنے پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھیں اور سیاسی اکھاڑوں میں جعلی سائنس کی مداری نہ لگائیں۔سیاست سے لے کر مذہب تک ہر شعبے میں ہم پہلے ہی مخمصے کا شکار ہیں تو اب کیا سائنس میں بھی تفرقہ بازی ہوگی؟
ہمیں آغا وقار کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ہمارے چند انتہائی معتبر سمجھے جانے والے مشہور و مقبول قومی سائنسدانوں کو سائنس کے بنیادی تصورات سے کیسی واقفیت ہے یہ ہمیں کبھی پتہ نہ چلتا اگر آغا وقار یہ ایجاد نہ کرتا تو۔ایک خطر ناک پہلو یہ ہے کہ اس نام نہاد ایجاد اور اس سے متعلق دلائل نہ صرف قطعی طور پر غلط ہیں بلکہ گمراہ کن ہیں۔اوراس کا پہلا شکار عوام الناس اور دوسرا سائنس کے ابتدائی طالب علم ہیں۔پی سی ایس آئی آر کے چیئرمین جن کا مضمون بیالوجی ہے اور ان کی تازہ ترین سی وی چودہ صفحات پر مشتمل ہے۔ان کو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی غلطی تسلیم کرنی چاہیے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی اگر اپنے موقف پرنظر ثانی فرمائیں تو یہ ان کا قوم پر احسان ہوگا۔ جبکہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند پہلے ہی کسی حد تک ازالہ کر چکے ہیں۔
اُن اداروں کوبھی اپنا موقف واضح کرنا چاہیے جن کا نام آغا وقار وقتاََ فوقتاََ اپنی ایجاد کے تصدیق کنندگان کے طور پر لیتا رہا ہے جن میں پاکستان انجنیرنگ کونسل(بقول آغا وقار پاکستان انجنیرنگ کونسل اور اسکے سارے سائنسدان) اور پاکستان اٹامک انرجی کمیش (بقول آغا وقار پاکستان اٹامک انرجی اور اسکے سارے سائنسدان)سر فہرست ہیں۔
آخر میں ٹی وی میزبانوں سے: بس بھائی بس سیاسی اور سماجی اصلاح کا بیڑہ غرق کرنے پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھیں اور سیاسی اکھاڑوں میں جعلی سائنس کی مداری نہ لگائیں۔سیاست سے لے کر مذہب تک ہر شعبے میں ہم پہلے ہی مخمصے کا شکار ہیں تو اب کیا سائنس میں بھی تفرقہ بازی ہوگی؟